یوم نیلابٹ تحریک آزادی کشمیر کی اساس ہے ۔ اہل کشمیر ہر سال 23اگست کو یومِ نیلا بٹ کے طور پر نہایت جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں یہ دِن منانا ایک رسم و روایت بن چکا ہے۔ اِس دِن کی تاریخ کشمیر میں وہی اہمیت ہے جو کسی بھی قوم و ملک کی تاریخ میں جدوجہد کے نقطہ اوّل، کسی عمارت میں خشتِ اوّل اور کسی طویل سفر میں پہلے قدم کی ہوتی ہے۔ اس دِن کشمیری مسلمانوں کی اجتماعی خواہشات کا پیمانہ چھلک پڑا اور وہ جدوجہد کے نئے راستے پر گامزن ہو گئے۔ قومی نظریے کے تحت پاکستان کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں کا ملک دنیا میں عقیدے اور نظریے کی بناء پر آنے والا پہلا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان دُنیا کے نقشے پر زندہ حقیقت کے طور پر اُبھر چکا ہے۔ 368 کے قریب شاہی ریاستیں اپنے تہذیبی اور جغرافیائی رُجحانات کی بناء پر جس ملک سے چاہتی الحاق کرتے۔ جموں و کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور حکمران ہندو مہاراجہ تھا۔ مسلمانوں کی اکثریت کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے تھے جبکہ مہاراجہ کا دِل فطری طور پر بھارت کے ساتھ دھڑکتا تھا مہاراجہ بظاہر کشمیر کو خودمختار بنانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن تقسیم کے اُصول کے تحت اس کی گنجائش کم تھی اور یہ فقط وقت گزارنے کے حیلہ تھا۔ 19جولائی 1947ء کو سری نگر میں منعقدہ ایک اجلاس میں ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کی جس کی پاداش میں جموں و کشمیر کے اڑھائی لاکھ مسلمان ڈوگرہ فوج اور ہندؤں کی مصروف مسلح دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے غنڈوں کے ساتھ گاجر مولی کی طرح کٹ گئے۔ چند لاکھ مسلمان ہجرت کر کے پاکستان پہنچے دوسری طرف اس وقت کے نوجوان سردار محمد عبدالقیوم خان نے نیلا بٹ سے جہاد کا اعلان کیا جو کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل ریاست کے 23ہزار مربع میل علاقہ کی آزادی پر مینج ہوا۔ اس کے برعکس شیخ محمد عبداللہ نے پنڈت جواہر لعل نہرو اور دوسرے کانگریسی لیڈروں کے جھانسے میں آ کر بقول السٹرلیمب کے مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے بھارت کے ساتھ ریاست کا فرضی الحاق کر کے تصدیق کر کے اہلیان کشمیر کو بھارت کی غلامی میں دے دیا گیا۔ 19جولائی1947ء اسلامیان جموں و کشمیر کی نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ، کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں قرار داد کی صورت میں اپنا فیصلہ سنا چکی تھی۔ دہلی میں کشمیر کو ہتھیانے کی سازش عروج پر تھی گوردراسپور کا علاقہ بھارت کو دے کر ایک گہری سازش کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ مہاراجہ کی طرف سے کشمیر کے الحاق
میں لیت و لعل کی بناء پر کشمیر میں بے چینی بڑھ رہی تھی۔ اس بے چینی کے اظہار کا ثبوت نیلا بٹ میں 23اگست 1947ء کو ہونے والا جلسہ تھا جس کی صدارت شمشاد علی شاہ نے کی اس جلسہ کے روح رواں ایک 23سالہ نوجوان سردار محمد عبدالقیوم خان تھے۔ جلسہ میں مقررّین نے پُرجوش تقریریں کی اور ڈوگروں کی طرف سے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر شدید تشویش کا اظہار کیا یہ جلسہ بالآخر اجلاس میں تبدیل ہو گیا اور ڈوگرہ سپاہیوں کے ساتھ تصادم ہو گیا۔اس جلسے کی روح رواں سردار عبدالقیوم خان مجاہد اول کے خطاب سے مشہور ہوئے۔نیلا بٹ کو شروع ہونے والے جہاد بالآخر پوری ریاست میں پھیل گیا اور یوں ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت اور نفرت کا ولاوہ پھٹ پڑا جو برسوں سے خوف کے باعث دبا ہوا تھا۔نیلا بٹ کے جلسے اور جلوس میں چلنے والی پہلی گولی ڈوگرہ امریت کی چادر میں جو چھید کیا وہ بڑھتا ہی چلا گیا اور ایک منظم جدوجہد شروع ہو کر پھیلتی چلی گئی۔اس جدوجہد کے نتیجے میں یہ علاقہ آزاد ہوا جسے ہم آج آزاد جموں و کشمیر کے نام سے پکارتے ہیں اس طرح نیلا بٹ کو جدوجہد آزادی کا سنگ میل کہنا کلی طور پر بجائے ہے اس جدودہد کے بانی اور23سالہ پُر جوش راہنما سردار عبدالقیوم خان نے مجاہد اول کے نام سے عالمگیر شہرت حاصل کی۔ آپ نے کئی دہائیوں تک آزاد کشمیر اور پاکستان کی سیاست میں تجربے دانش،فہم و فراست کی موتی ہی نہیں بکھیرے بلکہ بھارت کے زی ٹی وی پر 1995میں ایک تاریخی انٹرویو کے ذریعے آپ نے انتہائی ذہین بھارتی اینگر رجت شرما کے سخت سوالوں کا سامنا کیا اور اسے ہر سوال کا مسکت جواب دیا۔جس پر دنیا آپ کی سیاسی فراست کی قائل ہو گئی۔یہ فتاب عالم تاب توں تک سیاسیات کشمیر کے افق پر جگمگانے کے بعد دس جولائی بروز جمعہ راولپنڈی کے قائد اعظم انٹرنیشنل ہسپتانل میں غروب ہوا اور اپنے پیچھے لاکھوں سوگواروں کو چھوڑ گیا۔آج غازی آباد میں ان کا مزار مرجع خلائق ہے۔یہ تیسرا یوم نیلا بٹ ہے جس میں مجاہداول موجود نہیں ہوں گے مگر ان کے سیاسی جانشین اور تربیت یافتہ سردار عتیق احمد خان کارکنوں کا حوصلہ اور ڈھارس بڑھانے کے لیے ان کے درمیان ہیں۔اس بار یوم نیلا بٹ کے موقع پر مسلم کانفرنس کے کارکن اپنے قائد اور جدوجہد کے عظیم ہیرو کے نقش قدم پر چلنے کا عہد کرتے ہیں۔
٭٭٭