٢٥ اکتوبر ٢٠١٨ء کو یوروپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق نے اپنے تاریخ ساز فیصلہ میں پوری دنیا کو بتایا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی دوسرے نبی کی شان میں توہین آمیز بات کہنا یا لکھنا آزادی رائے نہیں، بلکہ اس سے لوگوں میں نفرت وعداوت پیدا ہوتی ہے اور اس طرح کے واقعات سے دنیا میں امن وامان کے بجائے عدم رواداری اور عدم تحمل میں اضافہ ہی ہوگا۔ یاد رہے کہ ٤٧ ملک کے ممبران پر مشتمل European Court of Human Rights کی بنیاد ١٩٥٩ء میں رکھی گئی تھی۔ دوسری طرف ٣١ اکتوبر ٢٠١٨ء کو اسلام کے نام سے وجود میں آئی مملکت خداداد ” اسلامی جمہوریہ پاکستان’ ‘ کی سپریم کورٹ نے ایک مسیحی خاتون ”آسیہ بی بی” کو رہائی کا حکم دیا ، جس کو لاہور کی ایک مقامی عدالت نے توہین رسالت کا مرتکب مان کر موت کی سزا سنائی تھی، جس کو لاہور ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف اکتوبر ٢٠١٤ء میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی، جس پر پاکستان کی سپریم کورٹ نے چار سال کے بعد یہ فیصلہ سنایا کہ گواہوں کے بیانات میں تضاد کی بنیاد پر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ کردیا گیا اور آسیہ بی بی کو رہا ئی کا حکم دے دیا۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ اسلام میں تمام لوگوں کے حقوق محفوظ ہیںاور کسی بھی غیر مسلم کو مذہب اسلام قبول کرنے پر کوئی زبردستی نہیں ہے، بلکہ صرف اور صرف ترغیب اور تعلیم پر انحصار کیا جاتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ برصغیر میں لاکھوں انسانوں کا دین اسلام قبول کرنا صرف اور صرف اُن کادین اسلام کو پسند کرنے کی وجہ سے تھا، کوئی زور زبردستی اُن کے ساتھ نہیں تھی۔ دین اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کی درخشاں روایات قائم کی ہیں۔ ایک مرتبہ آپ ۖکے سامنے ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو آپۖ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ صحابۂ کرام نے پوچھا کہ غیر مسلم کے لیے ایسا احترام کیوں؟ تو آپۖ نے ارشاد فرمایا: کیا وہ انسان نہیں ہے؟ (بخاری) لیکن جس طرح مذہب اسلام میں دیگر مذاہب کے پیشواؤںکی توہین کرنے کی اجازت نہیں ہے، اُسی طرح پور ی انسانیت کے نبی حضرت محمد ۖ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں ہے خواہ اُس کا مرتکب مسلم ہو یا غیر مسلم۔ مسلمان اپنے نبی کے احترام کے ساتھ دیگر انبیاء کرام کا مکمل احترام کرتا ہے بلکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں کسی بھی شخص کے کامل مؤمن ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ آخری نبی حضرت محمد مصطفیۖ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ دیگر ابنیاء کرام پر بھی ایمان لائے، جبکہ دیگر آسمانی مذہب کو ماننے کا دعویٰ کرنے والوں کی مذہبی تعلیمات میں آج بھی حضرت محمد ۖ کو نبی ماننے پر اُن کے مذہب سے نکل جاتا ہے۔ چند ماہ قبل کی بات ہے کہ ہولینڈ حضرت محمد مصطفی ۖ کی شخصیت سے متعلق کارٹون بنانے کا مقابلہ منعقد کرنا چاہتا تھا لیکن مسلمانوں کے پر امن احتجاج کے بعد اسے اپنے فیصلے سے رجوع کرنا پڑا۔ مذہب اسلام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق اس نوعیت کا کوئی عمل کرنا تو درکنار اس کا ارادہ کرنا بھی غلط ہے، چنانچہ ایک مسلمان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کو عیسائی حضرات اپنا پیشوا مانتے ہیں یا حضرت موسیٰ علیہ السلام جنہیں یہودی اپنا پیشوا تسلیم کرتے ہیں، کہ اُن کے متعلق کوئی غلط بات بھی اُن کی طرف منسوب کی جائے چنانچہ عملی طور پر پوری دنیا میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ جس میں کسی مسلمان نے مسیحی یا یہودیوں کے پیشوا کی شان میں گستاخی کی ہو۔ جو واقعات بھی وقتاً فوقتاً پیش آتے ہیں وہ صرف اور صرف آخری نبی حضرت محمد مصطفی ۖ کے متعلق آتے ہیں، لہٰذا عالمی برادری کو چاہئے کہ توہین رسالت کے مرتکبین کی سزا کے لیے سخت قانون بنایا جائے تاکہ اظہار رائے کے نام پر حضرت محمد ۖ کی شان میں گستاخی کا سلسلہ بند ہو۔ رہا پاکستان کی سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ تو ضرورت ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ لاہور کی مقامی عدالت اور لاہور ہائی کورٹ نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو کیوں توہین رسالت کا مرتکب مان کر موت کی سزا سنائی تھی؟ اور سپریم کورٹ نے اُس فیصلہ کو کیوں منسوخ کردیا؟ جس طرح کسی شخص کو بلاوجہ توہین رسالت کے قانون کے تحت موت کی سزا سنانا جرم ہے، اُسی طرح توہین رسالت کے مرتکب کو کسی دباؤ کی وجہ سے بری کرنا بھی جرم ہے خاص کر اُس ملک میں جہاں کے لوگ اور حکومت پاکستان کو خداد اد مملکت ”Islamic Republic of Pakistan’ کہتی ہو۔
پوری دنیا کے ارباب علم ودانش کا موقف ہے کہ کسی شخص کی توہین وتحقیر کا رائے کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ تقریباً ہر ملک میں شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ کہ وہ اپنی ہتک عزت کی صورت میں عدالت سے رجوع کریں اور ہتک عزت کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا دلوائیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی شخص کی ہتک عزت کرنے والے کو قانوناً مجرم تسلیم کیا جاتا ہے ، تو مذاہب کے پیشواؤں اور خاص طور پر انبیاء کرام کے لئے یہ حق کیوں تسلیم نہیں کیا جارہا ہے۔ اور مذہبی رہنماؤں کی توہین وتحقیر کو رائے کی آزادی کہہ کر جرائم کی فہرست سے نکال کر حقوق کی فہرست میں کیسے شامل کیا جارہا ہے؟ یہ آزادی رائے نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلام مخالف تنظیموں اور حکومتوں کی انتہاپسندی اور فکری دہشت گردی ہے۔ اسلام نے ہمیشہ دنیا میں امن وسلامتی قائم کرنے کی ہی دعوت دی ہے۔ جس کی زندہ مثال ہندوستان کے احوال ہیں کہ مختلف ہندو تنظیمیں ملک کے امن وامان کو نیست ونابود کرنے پر تلی ہیں مگر مسلمان اپنے جذبات پر قابو رکھ کر یہی کوشش کررہا ہے کہ ملک میں چین اور سکون باقی رہے۔
پوری امت مسلمہ متفق ہے اور دیگر مذاہب بھی اس کی تایید کرتے ہیں کہ حضرات ابنیاء کرام کی توہین وتحقیر سنگین ترین جرم ہے۔ اس لئے کہ اس میں مذہبی پیشواؤں کی توہین کے ساتھ ساتھ ان کے کروڑوں پیروکاروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے کے جرائم بھی شامل ہوجاتے ہیں، جس سے اس جرم کی سنگینی میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ قرآن وسنت اور دیگر مذاہب میں اس کی سزا موت ہی بیان کی گئی ہے کیونکہ اس سے کم سزا میں نہ حضرات ابنیاء کرام کے احترام کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے کروڑوں پیروکاروں کے مذہبی جذبات کی جائز حد تک تسکین ہوپاتی ہے۔ ہاں یہ بات مسلم ہے کہ موت کی سزا دینے کی اتھارٹی صرف حکومت وقت کو ہی حاصل ہے کیونکہ عام آدمی کے قانون کو ہاتھ میں لینے سے معاشرہ میں لاقانونیت اور افراتفری کو ہی فروغ ملے گا۔ لہٰذا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ توہین وتحقیر کے عمل کو سنگین جرم قرار دے کر مجرموں کے خلاف ضروری کاروائی کرے۔ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ حضور اکرمۖ کی شان میں گستاخی کرنے والے شخص کو قتل کیا جائے گا۔ علامہ ابن تیمیہ نے ٣جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب (الصَّارِمُ المَسْلُوْل عَلَی شَاتِمِ الرَّسُوْل) میں اس موضوع پر قرآن وحدیث کے دلائل کی روشنی میں تفصیلی بحث کی ہے۔ غلاف کعبہ سے لپٹے ہوئے توہین رسالت کے مرتکب کو قتل کرنے کا حکم حضور اکرم ۖ نے دیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ۖمکہ مکرمہ میں تشریف فرماتھے۔ کسی نے حضور سے عرض کیا: (آپ کی شان میں توہین کرنے والا) ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لپٹا ہوا ہے۔ آپ ۖ نے فرمایا: اسے قتل کردو۔ (صحیح بخاری۔باب دخول الحرم… و باب این رکز النبی ۖ الرایہ یوم الفتح) یہ عبداللہ بن خطل مرتد تھا جو رسول اللہۖ کی ہجو میں شعر کہہ کر حضور اکرم ۖ کی شان میں توہین کرتا تھا۔ اس نے دو گانے والی لونڈیاں اس لئے رکھی ہوئی تھیں کہ وہ حضور اکرم ۖ کی ہجو میں اشعار گایا کریں۔ جب حضور اکرم ۖ نے اس کے قتل کا حکم دیا تو اسے غلاف کعبہ سے باہر نکال کر باندھا گیا اور مسجد حرام میں مقام ابراہیم اور زمزم کے کنوئیں کے درمیان اس کی گردن اڑادی گئی۔ (فتح الباری ۔ باب این رکز النبی ۖ الرایہ یوم الفتح،،، یہ بخاری کی سب سے مشہور شرح ہے) اس دن ایک ساعت کے لئے حرم مکہ کو حضور اکرم ۖ کے لئے حلال قرار دیا گیا تھا۔مسجد حرام میں مقام ابراہیم اور زمزم کے کنوئیں کے درمیان یعنی بیت اللہ سے صرف چند میٹر کے فاصلہ پر اس کا قتل کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ گستاخ رسول باقی مرتدین سے بدرجہا بدتر وبدحال ہے۔
پوری انسانیت کو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ ہر مسلمان کے دل میں حضور اکرم ۖ کی محبت دنیا کی ہرچیز سے زیادہ ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان کا حضور اکرم ۖ اور آپ کی سنتوں سے محبت کرنا لازم اور ضروری ہے۔ نیز حضور اکرم ۖ کی زندگی میں ایسی اوصاف حمیدہ بیک وقت موجود تھیں جو آج تک نہ کسی انسان کی زندگی میں موجود رہی ہیں اور نہ ہی ان اوصاف حمیدہ سے متصف کوئی شخص اس دنیا میں آئے گا۔ آپ کی چند صفات یہ ہیں: عجز وانکساری، عفو ودرگزر، ہمسایوں کا خیال ، لوگوں کی خدمت، بچوں پر شفقت،خواتین کا احترام، جانوروں پر رحم، عدل وانصاف ، غلام اور یتیم کا خیال، شجاعت وبہادری، استقامت، زہد وقناعت، صفائی ٔمعاملات، سلام میں پہل، سخاوت وفیاضی، مہمان نوازی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کو اپنے بچوں، اپنے ماں باپ اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) ایک مرتبہ حضور اکرمۖ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ حضرت عمر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوائے میری اپنی جان کے۔ حضور اکرم ۖ نے فرمایا: نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں۔ حضرت عمر نے عرض کیا: واللہ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا: عمر! اب بات ہوئی۔ (صحیح بخاری)
دنیا کی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھ کر میں تمام مسلمانوں سے یہی درخواست کرتا ہوں کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر حضور اکرم ۖ کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں لائیں اور آپ ۖ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے میں اپنی صلاحتیں لگائیں۔ نبی بنائے جانے سے لے کر وفات تک آپ ۖکو بے شمار تکلیفیں دی گئیں۔ آپۖ کے اوپر اونٹنی کی اوجھڑی ڈالی گئی۔ آپ ۖ کے اوپر گھر کا کوڑا ڈالا گیا۔ آپ ۖ کو کاہن ،جادوگر اور مجنوں کہہ کر مذاق اڑایا گیا۔ آپ ۖ کی بیٹیوں کو طلاق دی گئی۔ آپۖ کا تین سال تک بائیکاٹ کیا گیا۔ آپۖ پر پتھر برسائے گئے۔ آپ ۖ کو اپنا شہر چھوڑنا پڑا۔ آپ ۖ غزوۂ احد کے موقع پر زخمی کئے گئے۔ آپ ۖ کوزہر دے کر مارنے کی کوشش کی گئی۔ آپ ۖ نے کبھی ایک دن میں دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ آپ ۖ نے بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے۔ آپ ۖ کے گھر میں دو دو مہینے تک چولھا نہیں جلا۔ آپ ۖ کے اوپر پتھر کی چٹان گراکر مارنے کی کوشش کی گئی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوا آپ ۖ کی ساری اولاد کی آپۖ کے سامنے وفات ہوئی۔ غرضیکہ سید الانبیاء وسید البشر کو مختلف طریقوں سے ستایا گیا، مگر آپ ۖ نے کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا، آپ ۖ رسالت کی اہم ذمہ داری کو استقامت کے ساتھ بحسن خوبی انجام دیتے رہے۔ ہمیں ان واقعات سے یہ سبق لینا چاہئے کہ گھریلو یا ملکی یا عالمی سطح پر جیسے بھی حالات ہمارے اوپر آئیں، ہم ان پر صبر کریں اور اپنے نبی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)