سردار خالد ابراہیم بھی ہم سے 4 نومبر کو جدا ہو گئے ۔ آزاد کشمیر پاکستان کے غیور اور بہادر سدوزئی قبیلہ سے تعلق اور جناب سردار محمد ابراہیم خان مرحوم (بانی صدر ریاست) کے فرزند ارجمند تھے۔
مرحوم آزاد کشمیر اسمبلی میں 4 دفعہ منتخب ہوئے اور دو بار اصولوں پر سودا بازی نہ کرتے ہوئے مستعفی ہوئے۔ پہلی دفعہ 1994 میں جب اسمبلی میں ترمیم کے ذریعہ 484 افراد کی تقرری عمل میں لائی گئی تھی جو کہ میرٹ کی خلاف ورزی تھی۔ جسے بعد میں عدالت نے بھی منسوخ کر دیا تھا۔ دوسری مرتبہ پھر 2009ء میں سردار محمد یعقوب خان کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔1975 سے سیاست میں قدم رکھنے کے بعد مسلسل سیاست میں متحرک رہے اور سیاست کو عبادت سمجھتے تھے۔ شروع میں پیپلز پارٹی سے وابستگی رہی اور 1991ء میں جب بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شہرت عروج پر تھی راولاکوٹ (منگ) کے مقام پر خواتین کو خطاب نہ کرنے پر ناراض ہو کر گاڑی سے اتر گئے ۔ پھر کبھی واپس پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی اور اپنی الگ جماعت آزاد کشمیر پیپلز پارٹی کے نام سے قائم کی اور تا حیات اسی کے ساتھ منسلک رہے۔ انہوں نے کبھی بھی افراد کی سیاست نہیں کی بلکہ ہمیشہ نظریہ، میرٹ کی سیاست کی اور اسی پر قائم رہے۔ ان کے والد مرحوم چار دفعہ صدر ریاست رہے اور انہوں نے بلوغت میں آنے کے بعد کبھی بھی صدارتی سیکرٹریٹ کی مراعات سے استفادہ حاصل نہیں کیا۔ ہمیشہ ذاتی سوزوکی جیپ پر سفر کرتے رہے۔ سابق وزیر حکومت حنیف اعوان صاحب نے 1996کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس وقت پولیٹیکل سیکرٹری ہمراہ صدر تھے کہ سردار محمد ابراہیم خان نے مجھے کہا کہ خالد سے بات کرو اور اس کو نئی گاڑی جو اس کو پسند ہو لے کر دے دو۔ چونکہ وہ ہمیشہ سوزوکی پر سفر کر رہا ہے ۔ وہ آپ کی بات سنتا ہے اور اس کو رضا مند کر کے مجھ سے رقم لے لو۔ حنیف صاحب فرماتے ہیں کہ جب شام کو میں نے خوشی خوشی خالد ابراہیم صاحب کو یہ بات بتائی تو انہوں نے فرمایا کہ میرے لئے سوزوکی ہی بہتر ہے۔ آپ والد محترم کو کہیں کہ جو رقم وہ گاڑی کے لئے دے رہے ہیں وہ کسی غریب شخص کی کفالت کر لیں۔
قرار داد الحاق پاکستان 19 جولائی 1947ء کو سرینگر میں سردار ابراہیم خان کے گھر پر منعقدہ اجلاس میں منظور ہوئی اور اسی قرار داد میں راجا عبدالحمید خان مرحوم (والد نورین عارف) بھی ہر اول دستہ میں شامل تھے۔ دو دن قبل 17 جولائی کو شیخ محمد عبداللہ نے ایک قرار داد منظور کی تھی۔ جس کے جواب میں 19 جولائی کی قرار داد انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔ اس قرار داد کی منظوری کے بعد مہاراجا نے سردار محمد ابراہیم خان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے جس کے بعد راجا عبدالحمید خان مرحوم نے سردار ابرہارم خان کو بحفاظت دومیل سے براستہ گڑھی حبیب اللہ ایبٹ آباد پہنچا کر واپسی پر عبدالحمید خان کو بتایا کہ حکومت نے گرفتار کیا اور پھر قیام پاکستان کے بعد رہائی یقینی ہوئی اور کئی اہم دستاویزات لے کر سردار محمد ابراہم خان نے قائداعظم سے ملاقات کی۔ (اس کا تذکرہ ان کی کتاب کشمیر ساگا میں بھی ہے) اور انہی دستاویزات کی روشنی میں 5 جنوری 1949ء میں UNO میں خطاب فرما کر حق خود ارادیت کی قرار داد منظور کروائی۔ راجہ عبدالحمید خان کی وفات سے قبل سردار ابراہیم خاں کی خواہش پر ہمارے گھر پر تحریک آزادی کشمیر کے متعلق ایک طویل نشست ہوئی۔ اس کی تمام ریکارڈنگ سینئر صحافی سردار علی شان نے کی اور اس کا ریکارڈ سنٹرل لائبریری مظفرآباد میں بھی موجود ہے۔ جس کی انشاء اللہ اب اشاعت بھی کر دی جائے گی۔ تا کہ تحریک آزادی کشمیر کے متعلق لوگوں کو مزید آگاہی آگاہ بھی ہو سکے۔ اس اضافی تمہید کا مقصد یہ تھا کہ اتنے بڑے پس منظر (Background) کے باوجود سردار خالد ابراہیم نے اس کا کریڈٹ کبھی نہیں لیا اور اپنا الگ اور منفرد مقام قائم رکھا۔ اس وجہ سے میری بھی ان سے شناسائی کافی دیرینہ تھی اور سردار محمد ابراہیم خان بذات خود اور مرحوم خالد ابراہیم بھی اس طرح ہمارے خاندان کی عزت کرتے تھے اور ہمیشہ اچھے الفاظ کے ساتھ یاد فرماتے تھے۔
میں جب ملازمت میں تھا تو ان سے گزارش کی کہ اگر میرے محکمہ کے متعلقہ کام ہو تو مجھے ضرور حکم دینا۔ انتہائی مود بانہ انداز میں فرمایا۔ ”آپ کا شکریہ۔ میں امید رکھوں گا کہ آپ میرٹ پر کام کریں گے”۔ کافی عرصہ بعد ایک دفعہ مجھے ٹیلی فون کیا اور فرمایا۔ ”ڈاکٹر صاحب ایک شخص میرے پاس آیا۔ حقائق بیان کر رہا ہے۔ اس کو بھیج رہا ہوں۔ دیکھ لیں حقائق درست ہیں تا ہم اس کو میری سفارش نہ سمجھنا۔ میرٹ پر فیصلہ کرنا” ۔ اتنے بلند اور عظیم لوگ مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔
آپ نڈر ، بے باک، دیانت کے پیکر، میرٹ پر مکمل یقین رکھتے تھے اور میرٹ سے ان کی مراد نوکری میں میرٹ نہیں بلکہ اپنی ذات سے شروع کر کے تمام امور پر مکمل یقین رکھتے تھے کبھی کوئی پلاٹ یا دیگر سرکاری مراعات حاصل نہیں کیں اور انتہائی صاحب جائیداد ہونے کے باوجود مسلسل اس میں کمی ہی واقع ہوئی اس وقت بھی وہ خود اسلام آباد میں کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ ان کی کوئی برادری کوئی علاقہ نہ تھا۔ وہ ہر علاقہ کو اپنا علاقہ ہر فرد کو اپنی برادری کا فرد تصور کرتے تھے۔
افسوس کا مقام ہے کہ اس سارے دور میں ہم ان کو سیاسی طور پر وہ مقام نہ دے سکے جس کے وہ مستحق تھے۔ چونکہ موجودہ سیاست اقتدار کی سیاست ہے جس سے وہ کوسوں دور ہے اور اصولوں کی سیاست پر کار بند ہے ۔ ورنہ پاکستان کے ہر دور کے حاکم نے ان کو اقتدار کی آفر کی اور اگر وہ چاہتے تو وزیراعظم، صدر کب کے بن چکے ہوتے۔ پاکستان کی ہر جماعت نے ان کو شمولیت کی دعوت دی۔ لیکن وہ رضا مند نہیں ہوئے۔ اپنی ہی پارٹی کو قائم دائم رکھا۔ آج کل کے مادہ پرست دور میں وقت کی ہوا کے مخالف سمت میں چلنا کوئی خالد ابراہیم کے افکار سے ہی سیکھ سکتا ہے۔
میرے خاندان پر سردار ابراہیم خان مرحوم اور پھر خالد ابراہیم کی ہمیشہ شفقت رہی۔ جس کا صلہ تو ہم صرف ہمہ وقت ان کی مغفرت کی دعا کے ساتھ دے سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائیں۔ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحوم کے درجات نبی پاک ۖکے صدقے بلند سے بلند ترین فرمائے۔
سردار محمد ابراہیم خاں نے چونجال ہل پونچھ سے دارالحکومت مظفرآباد منتقل کیا۔ میری تمام سیاسی جماعتوں سے گزارش ہے کہ ۔
-1 اوّل خالد ابراہیم مرحوم کے بیٹے کو الیکشن بلا مقابلہ کامیاب کروایا جائے اور بالخصوص مسلم لیگ (ن) کے صدر جناب فاروق حیدر خان اس میں پہل کریں۔
-2 پونچھ یونیورسٹی یا کسی اور اعلیٰ ادارے کو خالد ابراہیم کے نام سے موسوم کیا جائے۔
-3 مظفرآباد میں بھی کسی اہم پراجیکٹ کو ان کے نام سے موسوم کیا جائے۔ تا ہم موجودہ حکومت کی طرف سے ان کی وفات پر تعطیل اور سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کرنا انتہائی اچھی روایت ہے جس کے لئے میں وزیراعظم کا شکر گزار ہوں۔
خالد ابراہیم مرحوم نے کبھی بھی سیاست میں اپنے قبیلہ، والدم محترم کی کار ہائے نمایاں کا تذکرہ کئے بغیر اپنی الگ حیثیت میں اپنی انفرادی سیاست کو آگے بڑھایا جو لوگ جانتے ہیں انہیں علم ہے کہ انہوں نے الیکشن میں بھی کبھی پوسٹر پر کوئی اور فوٹو (سوائے اپنے فوٹوں) کے نہیں لگایا۔ اس طرح یہاں بھی انہوں نے اپنی انفرادیت کو قائم رکھا۔
آخر میں پھر اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، جنت فردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں بھی ان کی ابھی عادات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا