غازی ملت کیپٹن جنرل سیّد علی احمد شاہ

قائداعظم کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جس کی آنکھوں میں ذہانت تھی اور چہرہ پُر اعتماد تھا۔
١٩٤٤ء کو سرینگر میں آل جمّوں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں قائداعظم کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جس کی آنکھوں میں ذہانت تھی اور چہرہ پُر اعتماد تھا۔ اسٹیج پر جب یہ شخص سپاسنامہ پیش کرنے آیا تو دہن سے گویا علم و بصیرت کا دریا بہنے لگا۔ وہ روانی سے انگریزی بول رہا تھا اور ہر بات قرآنی آیات کے حوالے سے کر رہا تھا۔سر بفلک پہاڑوں کے حصار میں آزادی کی تڑپ نے فی الحقیقت اس مرد آہن کو جوالہ مکھی بنا دیا تھا۔ اجلاس کے بعد بر صغیر کے مسلمانوں کے عظیم قائد محمد علی جناح نے اس شخص سے گھل مل کر باتیں کیں۔ نظر قائد میں سما جانے والے ،سری نگر کے سنگ ریزوں میں چھپے درنایاب ،سیّد علی احمد شاہ ہی تھے جو بعد میں آزادکشمیر کے وزریرِدفاع اور پھر صدر بن گئے۔
سیّد علی احمد شاہ سادات کاظمی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ جن کی پیدایش پندرہ جولائی ١٨٩٩ء کو شیر گڑھی سری نگر میں ہوئی ۔ آپ کے والد سیّد علی شاہ مہاراجا پرتاب سنگھ کے اے ڈی سی تھے۔ وہ آرمی میجر کے عہدہ پر فائز تھے ۔ آپ کے آبائو اجداد گلاب سنگھ کے دور سے پہلے سے وہاں مقیم تھے۔ ان کی کافی زرعی زمینیں تھیں ۔ زیادہ تر افراد خاندان کشمیر آرمی اور پنجاب میں خدمات سر انجام دیتے رہے۔ سیّد علی احمد شاہ نے ابتدائی تعلیم سری نگر کے مشن سکول میں حاصل کی ۔١٨  جولائی ١٩٢٣ء کوتعلیم کی تکمیل کے بعد جموں و کشمیر آرمی کو بحیثیت لفٹینینٹ جوائن کیا۔انھوں نے انفنٹری، آرٹلری وغیرہ میں کشمیر کے مختلف حصوں ، گلگت اور سر حد میں اپنی خدمات سر انجام دیں۔١٩٤٢ء میں سیاست میں عملی قدم اس وقت رکھا جب ریاست کی سیاسی فضا کو کھرے سیاست دانوں کی ضرورت تھی ۔انھوں نے اپنی سروس کو خیر باد کہ کر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے جو کہ ٣٢لاکھ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تھی ،اپنی جدو جہد کا آغاز کیا اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کوبروئے کار لاتے ہوئے ۔ ١٩٤٤ء میں مسلم کانفرنس کے سالانہ کنونشن سری نگر میں قائداعظم محمد علی جناح کی موجودگی میں ایک زبردست قرارداد پیش کی کہ ریاست کے مسلمان اپنی سماجی ، معاشی اور معاشرتی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزاریں گے۔ جون ١٩٤٦ئمیں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے مرکزی پارلیمنٹری بورڈ کے چیئرمین منتخب کرائے گئے ۔ یہ وہی دور تھا جب آزادکشمیر کی تاریخی قرار داد پیش کی گئی اور جب چودھری غلام عباس اور دوسرے رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ اس نازک موقع پر سیّد علی احمد شاہ کی شخصیت ہی تھی ، جن کی کوششوں سے مسلم کانفرنس نے قانون ساز اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا اور اکثریت کے ساتھ الیکشن میں کامیابی حاصل کی ۔ ١٩  جولائی ١٩٤٧ء کو غازی ملت سردار محمد ابراہیمخان کی رہایش گاہ سری نگر میں پیش کی جانے والی الحاق پاکستان کی قرار داد میں بھی شامل تھے ۔ آپ مہاراجا کو مخلصانہ مشورہ پر زور طریقے سے دیا کہ وہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق منظور کر لے ۔
١٢  ستمبر ١٩٤٧ء کو شاہ صاحب نے قائداعظم محمد علی جناح کو کشمیر کی صو رت حال کے بارے میں ایک تفصیلی خط لکھا ۔ یہ خط بعد میں ایک پمفلٹ” کشمیر لیبریشن موومنٹ کا سیاسی منظر” کے عنوان سے چھپا ۔ یہ خط اس وقت لکھا گیاتھا جب مہاراجا اپنے ملٹری بریگیڈ کو پونچھ میں مسلمانوں کو دبانے کے لئے بھیج چکا تھا۔ ١٤اگست١٩٤٧ء اعلان آزادی کے بعد جب ریاست میں ہندوئوں اور سکھوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا تو شاہ صاحب ١٨ستمبر ١٩٤٧ء کو پاکستان تشریف لے آئے ۔ یہاں آکر انھوں نے تحریک آزادی کشمیر کے لئے مجاہدین کو اکٹھا کرنا شروع کیا اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر میرپور ، ڈڈیال ، بھمبر وغیرہ کا علاقہ آزاد کرالیا۔
٢٤  اکتوبر ١٩٤٧ء کو سردارمحمد ابراہیم خان کی صدارت میں بننے والی حکومت میں آپ وزیردفاع کی حیثیت سے شامل تھے ۔ اس دوران ریزولیوشن نمبر306کے تحت سردار ابراہیم خان اور آپ کو غازی ملت کا خطاب دیا گیا۔ کابینہ میں ردوبدل کے موقع پر جب آزادکشمیر میں نئے صدر کے ناموں پر غور ہونے لگا تو کابینہ کے رکن سیّد علی احمد شاہ کا نام  صدارت کے لئے زیر غور لایا گیا۔ لیاقت علی خان اور کابینہ کے دوسرے اراکین کو بتایا گیا کہ سیّد علی احمد شاہ کی دیانت داری کا یہ عالم ہے کہ وہ کسی کے ہاں پانی کا گھونٹ پینے کے روادارنہیں ہیں۔ انھوں نے ساری عمردیانت داری کے ساتھ بسر کی ہے اور آج تک کوئی ان پر انگلی نہیں اُٹھا سکا۔ بقول چودھری محمد علی مرحوم جس وقت سیّد علی احمد شاہ کے نام کی منظوری دے دی گئی تو اس موقع پر غلام محمد مرحوم نے ایک دلچسپ تجزیہ کیا جس سے تمام شریک افراد لطف اندوز ہوئے۔ غلام محمد مرحوم نے کہا کہ جس شخص کو آزاد کشمیر کاصدر مقرر کیا جا رہاہے اس میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جن کا اظہار لیاقت علی خان نے کیا ہے اور وزیراعظم کی خواہش کے معیار پر سیّد علی احمد شاہ پورا  اترتے ہیں ۔ عجیب اتفاق ہے کہ سیّد علی احمد شاہ آزادکشمیر حکومت کے وزیر دفاع ہیں ۔ ہمارے وزیراعظم کے پاس بھی وزرارت دفاع کا قلم دان ہے ۔ لیاقت علی خان وزیراعظم ہونے کے ساتھ وزارت دفاع کے نگران  ہیں توسیّد علی احمد شاہ صدر ہونے کے ساتھ وزارت دفاع کے نگران بھی ہوں گے۔ غلام محمد مرحوم کے اس تجزیے پر لیاقت علی خان مسکرائے اور محفل ختم ہوئی۔آزادکشمیر کی صدارت کے لئے چودھری غلام عباس (جو کہ مسلم کانفرنس کے صدر اور آزادکشمیر حکومت کے سپریم ہیڈ تھے) سے بھی مشورہ لیا گیا۔ اُن کی مشاورت ہی سے لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان نے غازی ملت سیّد علی احمد شاہ  کو آزادکشمیر کا صدرنامزد کیا۔
صدر بننے کے بعدسیّد علی احمد شاہ نے تحریک آزادی کشمیر کی خاطر اور آزادکشمیر میں تعمیر و ترقی کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ آپ کی صدارت کی مدت میں جو فیصلے ہوئیوہ تاریخی نوعیت کے ہیں ۔آزادکشمیر کے نظام حکومت کو اسلامیقالب میں ڈھالنے کے لئے عملی اقدامات شروع ہوا۔ آزادکشمیر میں امور دینیہ کا محکمہ قائم ہوا۔ قرآن و سنت کے مطابق قوانین کا نفاذ کیاگیا۔ عدالتوں میں مفتی مقرر کر دیئے گئے اور اسلامی قانون بنایاگیا۔ انھوں نے اپنی مدت صدارت میں آزادکشمیر کی باقاعدہ فوج کو منظم کیا اس سلسلہ میں آرڈر نمبر٣٩٢کے تحت ١٢  اکتوبر ١٩٥٠ کو آپ کوکیپٹن جنرل کا اعزاز دیا گیا۔ مسلم کانفرنس اور ریاست جموں و کشمیر کے عوام اور بالخصوص مسلمانوں کے لئے وہ اپنی خدمات کے باعث ایک عظیم سرمایہ تھے۔ انھیں ریاست جموں و کشمیر کی انتظامیہ کی تمام شاخوں بلکہ اس سے بڑھ کر فوج کے بارے میں بہت زیادہ تجربہ اور گہری معلومات حاصل تھیں ۔ اپنی ستائیس سالہ سروس کے دوران میں انھوں نے نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ برطانیہ کے فوجی معاملات خصوصاًفوج کی تنظیم اور مشینری کا بغور مطالعہ کیا ۔انھیں دستوری دستاویزی قانون اور بین الاقوامی معاملات کے وسیع علم پر عبور حاصل تھا۔ مذاہب کے تقابلی مطالعہ میں وہ بہت دلچسپی لیتے تھے۔ اسی وجہ سے دنیا کے تمام بڑے مذاہب اور مقدس کتابوں کی تفہیم کا وسیع علم انھیںحاصل تھا۔ جب کہ تعلیمات اسلام اور فلسفہ قانون کے علم پر بھی انھیں کامل عبور تھا۔علاوہ ازیں معاشیات کا علم اور تجربہ ہونے کی وجہ سے حکومت آزادکشمیر نے ان کے شہری و فوجی معاملات میں استفادہ کیا۔ بیرونی دنیا کو تحریک آزادی کشمیر کے مقاصد اور کامیابیوں سے روشناس کرانے کے لئے انھوں نے کئی کتابچے لکھے جن میں دو کتابچے”Political Back Ground of Azad Kashmir Liberation Movement”اور”Military Background of Kashmir Liberation Movement”بہت مفید اور پر اثر ثابت ہوئے یہ ان کے دورحکو مت میں پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی اور عالم اسلام کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز حق ہر پلیٹ فارم پر بلند کرتے رہے ۔ انھوں نے اس سلسلہ میں اقوام متحدہ کے صدر ، سیکرٹری جنرل ، پوپ جان پال، انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس ، پاکستان کے صدر وزیراعظم اور دنیا کے سربراہان کو متعدد خطوط لکھے۔ اس کے علاوہ آزادکشمیر کے سر براہان اور سیاسی راہنمائوں کو مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے سلسلہ میں جدوجہد پر ابھارتے رہے ۔
سیّد علی احمد ایک مخلص سادگی پسند ، دیانت دار اور فوراً گھل مل جانے والے سچے اور کھرے انسان تھے۔ ان کی شرافت و دیانت اور حق گوئی کا ہر کوئی گواہ ہے ۔آج بھی لوگ انکے دور حکومت کو یاد کرتے ہیں ۔ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ وہ کچھ کہنے کی بجائے کچھ کام کرنے والی زندگی پر یقین رکھتے تھے ۔ وہ ایک وسیع المشرب اور ہمدرد انسان تھے۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف ریاست کے ٤٠لاکھ نفوس کو حق خودارادیت دینے میں پوشید ہ ہے ۔ جو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک آزاد ، غیر جانبدار ، منصفانہ اور بالغ رائے دہی کے اُصول پر منعقدہ استصواب رائے سے ممکن ہے ۔ بصورت دیگرجہاد ہی آخری راستہ ہے ۔
سیّد علی احمد شاہ کی اولاد میں صرف ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام ڈاکٹر سیّد شرافت حسین شاہ تھا۔ جو آفات سمادی نذر ہو گئے ۔ شاہ صاحب اس واحد سہارے سے محرومی کے باوجود بھی مسلمانوں اور کشمیریوں کی آزادی کی تڑپ سینے سے لگائے رہے ۔ آخر کار یہ عظم راہنما ٢١مارچ ١٩٩٠ئکو اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے اور میرپور “MUST”یونیورسٹی کے پچھواڑے قبرستان میں دفن ہیں۔ آزادکشمیر میں آج بھی ان کے دور کی گونج سنائی دیتی ہے ۔ آزادکشمیر کی تاریخ اور جد وجہد آزادی کے جیالوں کا جب بھی ذکر آتا ہے اس میں سیّد علی احمد شاہ کو شاندار الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے ۔
موصوف مسلمانوں کے مذہبی فرقوں کے درمیان یگانگت اور ہم آہنگی کے داعی تھے۔ ان کی کوششوں سے میرپورڈگری کالج میں ایک سوسائٹی قائم کی گئی ۔ جس کانام”قرآنک سوسائٹی ”تھا۔ اس میں ہر مکتبہ فکر کے علماء شامل تھے۔ اس سوسائٹی کے باقاعدہ اجلاس ہوتے تھے۔جس میں ہر مکتبہ فکر کے علماء تقاریر کرتے تھے مگر اختلافی مسائل کو کوئی نہیں چھیڑتا تھا۔ اس سے مسلمان فرقوں کے مابین خاصی ہم آہنگی پیدا ہوئی۔ موصوف پہلے اس سوسائٹی کے ممبر تھے اور پھر صدر بھی رہے ۔ دیگر ممبران میں مفتی عبدالحکیم ، سیّد اکبر علی شاہ، عبدالعزیز سلہریا پرنسپل، مولوی محمد ایوب اور سردار محمد ایوب سیشن جج شامل تھے۔ سوسائٹی کے سیکرٹری پروفیسر محمد یوسف چودھری تھے۔ طلبا میں سے علی اصغر شاہ ، الالہ اکرام اور خالد نظامی متحرک رکن تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں