ثابت ہوا صرف اللہ کی ذات ہی سب پے حاوی

بھاری کون؟ باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
ثابت ہوا صرف اللہ کی ذات ہی سب پے حاوی اور بھاری ہے۔نیب نے جناب آصف علی زرداری کو سر عام دھر لیا ہے۔آں جناب نے اس نیب کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے جس کے بارے میں اعلی حضرت کا فرمان تھا کہ اس کی کیا مجال ہے جو مجھے گرفتار کرے۔اور کسی اور موقعے پر فرمایا کہ میں اداروں کو تھکا تھکا کر مارتا ہوں۔رب ذوالجلال اس ملک پر کرم فرمائے۔
عمران خان نے ایک بار کہا تھا کہسارے لٹیرے سارے چور اکٹھے ہو جائیں گے اس کا عملی ثبوت ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔جناب شہباز شریف لندن سے واپس آ کر آصف علی زرداری کی حمائت پر کمر بستہ ہو گئے ہیں ماضی کے دشمن آج کے دوست بن گئے ہیں ۔قوم کو شہباز شریف کی کیمروں کے سامنے وہ پھرتیاں اور انگلیوں کی حرکتیں یاد ہیں وہ سڑکوں پر گھسیٹنا پیٹ پھاڑ کر قومی دولت کو واپس لانے کے دعوے کدھر گئے۔ویسے دیکھا جائے عمران خان کے دور میں نیب جیسے ادارے شہباز شریف کے ہی سابقہ احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔انہی کے وہ فرمودات جو لاڑکانہ ملتان لاہور کی سرکوں پر گھسیٹنے کے بارے میں دئے گئے تھے انہی پر عمل ہوا ہے۔
تاریخ نے وہ دن بھی دیکھ لئے کہ پاکستان کی دو بڑی پارٹیوں کے سربراہان جیل میں ہیں۔کبھی کسی نے سوچا بھی تھا کہ کوئی ان پر ہاتھ ڈالے گا۔نواز شریف اور زرداری نے بھی نہیں سوچا تھا کہ کوئی انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈالے گا۔لوگوں کے مطالبات یہاں تک نہیں تھے کہ انہیں عزت و اھترام کے ساتھ جیل میں ڈالا جائے عوام چاہتے تھے کہ ایرانی انقلاب کی طرح یہاں کوئی خونی انقلاب آئے اور غربت افلاس کے مارے لوگوں کے اصل مجرموں کو کوئی عزت کوئی احترام دیا جائے۔
یہ پروڈکشن آرڈر بھی بھی قابل نفرین ہے۔اسے قومی دشمنوں کے استعمال کر کے لوگوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اگر شہباز شریف کی طرح روز نت نئے سوٹ پہن کر زرداری نے بھی اسمبلی آنا ہے تو خدارا یہ مخول اور ٹھٹھا عوام کے ساتھ نہ کیا جائے۔اسد قیصر پرانے دوستوں میں سے ہیں مرنجقن و مرنج شخصیت ہیں قاسم سوری بھی دوست ہیں لیکن قوم ان سے بھی خفا ہے اس لئے کہ وہ ان معاشی دہشت گردوں کے ساتھ اسمبلی میں نرم رویہ رکھتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف احتساب کے نام پر الیکشن جیت کے آئی ہے اگر اس نے قومی لٹیروں کو شکنجے میں نہ کسا تو پھر سمجھئے لوگ اس سے متنفر ہوں گے۔
مہنگائی کا عذاب اپنی جگہ لیکن ان لوگوں کو اگر ڈھیل دی گئی تو سمجھا جائے گا کہ احتساب ڈھونگ ہے۔
اگر آصف علی زرداری نواز شریف اور دیگر ساٹھ لوگ جو جلد جیلوں کی زینت بننے والے ہیں اگر ان کے ساتھ وہ سلوک ہوا جو شہباز شریف کے ساتھ ہوا تو سمجھئے یہ احتساب ایک مذاق سے کم نہیں ہو گا۔
بعض دوستوں کا خیال ہے کہ اس مرد حر کو اگر گیارہ سال جیل میں رکھنے کے باوجود کچھ ثابت نہیں ہو سکا تو اب کیا ہو گا۔حضور سن لیجئے نظام بھی وہی ہے اور قانون بھی وہی مگر فرق ہے عمران خان کا۔یہ دو پارٹیاں ملک کو لوٹتی رہیں ایک دوسرے کی کرپشن کے کیس خود بنائے اور خود ہی عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کرائے۔اللہ صحت دے کیپٹن صفدر کو انہوں نے مجھے خود بتایا کہ زرداری پر کرپشن اور دیگر کیس بنانے کے لئے ہم نے بلوچستان سے ایک بوڑھے ریٹائرڈ شخص کو اسلام آباد بلوا کر کیس بنوائے۔سچے اور جھوٹے بنے یہ تو بعد کی بات ہے لیکن کیس یہ لوگ ایک دوسرے کے خلاف بناتے رہے۔
اصل میں ہوا یوں کی ان دو پارٹیوں نے سوچا کہ کوئی تیسرا آ ہی نہیں سکتا ہم دونوں ہی میدان میں موجود رہیں گے۔ان کی آپس میں لڑائی اس بات پر ہوا کرتی تھی کہ پنجاب کون سنبھالے گا اور مرکز کون۔سرور پیلیس میں جلاوطنی کے دوران بیگم نصرت شہباز اور بیگم کلثوم نواز کے جھگڑے بھی اسی پر تھے۔نواز شریف کے بیٹے تو والدین کے نزدیک بلکل نالائق سمجھ لئے گئے تھے اسی لئے بیگم صاحبہ نے داماد پر ہاتھ رکھا۔بیٹی کی اخلاقی پوزیشن کمزور تھی اس لئے کیپٹن صفدر ہی ان کی چوائس تھے البتہ حمزہ شہباز کی طراریاں انہیں ہارٹ فیورٹ قرار دے رہی تھیں۔ادھر زرداری صاحب پیپلز پارٹی پر بڑی ہشیاری سے قابض تھے۔ایک جانب محترمہ بے نظیر سرور پیلیس میں نواز شریف سے مل کر کیک بانٹ رہی تھیں ۔لیکن خدا کا کرنا ہوا ایک کھلاڑی نے ان کہنہ مشقوں کے نیچے سے سیڑھی نکال دی۔زرداری اپنے طور پر اپنا راستہ صا کرنے میں مگن رہے اور نواز شریف اپنا۔شہباز شریف وہ واحد شخص ہے جس نے فوج کے ساتھ پنگا نہیں لیا۔سچ پوچھیں اگر نواز شریف میرا مشورہ مان لیتے تو یہ دن نہ دیکھنا نصیب ہوتے مدینہ منورہ کے اوبرائے ہوٹل میں ڈنر ٹیبل پر کوٹ لکھپتی نواز شریف انگلی ہلا کر مجھے بتا رہے تھے کہ انجینئر صاحب اس فوج کی۔۔۔۔۔تو میرا نام نواز شریف نہیں جس کے جواب میں کہا تھا کہ میاں صاحب پوری فوج کو گالی نہ دیں کرپٹ جرنیلوں کی بات کریں جس پر شہباز شریف نے اچھل کر کہا تھا بلکل ،،،بلکل ایسا ہی ہونا چاہئے۔اس بات کی گواہء مسعود ملک اور میاں حنیف یا چودھری حنیف لاہور والے ہیں۔
میاں صاحب اور زرداری کی سب سے بڑی مما ثلت یہ ہے کہ وہ چمڑی دینے کے لئے تیار ہیں مگر دھمڑی نہیں دینا چاہتے۔
میاں ساحب کا طرز سیاست یہ ہے کہ اربوں ڈالر دینے کی بجائے چند لاکھ ڈالر لگا کر فیصلے اپنے حق میں کرا لیئے جائیں۔
ہمارے دوست یہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ سعودیہ ٹرائل کیا جائے ان دوستوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے سعودی عرب میں عدلیہ اور عوام مختلف نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔وہاں انقالب آتا ہے تو خونریزی بھی ہوتی ہے وہاں وکلاء مرنے مارنے پر نہیں تل جاتے اور نہ ہی عوام سڑکوں پر آتی ہے۔خواہش تو یہاں بھی ویسی ہی ہے بلکہ ایرانی انقلاب جیسی لیکن ہوتا نہیں ہے۔
بعض دوستوں کا خیال ہے کہ جناب آصف علی زردااری پھر سر خرو ہو کر نکلیں گے۔کیسے سر خرو ہوتے ہیں آنے والا وقت بتائے گا کہ موجودہ حکومت جو چو مکھی لڑائی لڑنے جا رہی ہے اس کے نتائیج کیا نکلتے ہیں۔
بلاول ابا بچائو تحریک میں ہر جائز و ناجائز کے قائل نظر آتے ہیں علی وزیر اور محسن داوڑ کو وہ آصف علی زرداری کے پلڑے میں تولتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان دو افراد کو اسمبلی میں لا کر سنا جائے۔جناب اگر انہیں سننا ہے تو ان کی جیل میں جا کر سنیں جو شخص آئین پاکستان کا انکاری ہے اسے تو اس اسمبلی میں بھی نہیں ہونا چاہئے تھا پی ٹی آئی کی یہ ہمالائی غلطی کی سزا اب بھگتنا ہو گی۔اس کے خلاف امیدوار کیوں نہیں کھڑے کئے گئے؟ان کی آمد لے ساتھ فاٹا کا انضمام مکمل ہوتا ہے۔فاٹا کے انضمام کے بعد خطیر رقم رکھی جاتی ہے اس سارے عمل میں نون،پی پی پی ،پی ٹی آئی ایک ہوکر ایک ہی آواز بلند کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد پی ٹی ایم احتجاج کو خونیں کیوں بناتی ہے؟
اس نکتے کو سمجھئے نیو ورلڈ آرڈر میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک بفر اسٹیٹ کی بات کی گئی تھی۔فاٹا کے آپریشنز نے وہاں کی عوام کو منتشر کر دیا اور وہ پاکستان کے بڑے شہروں میں پھیل گئے ظاہر ہے مہاجرین خارجی ہوں یا داخلی ان کی مشکلات ہوتی ہیں اور ان تکلیفوں کو ایم کیو ایم کے الطاف نے بھی استعمال کیا اور منظور پشتین کیوں نہیں کرے گا۔اب طبل جنگ بج چکا۔ایک جانب زرداری نواز اندر دوسری جانب پی ٹی ایم اور سونے پر سہاگہ سپریم کورٹ بار کے لوگ بھی میدان میں کود پڑے۔ایک صاحب نے اسے چھوٹے صوبے کے ساتھ زیادتی قرار دیا اور ایک ایسے جج جس پر کرپشن کے الزامات ہیں اسے بلوچستان کے صوبے کے ساتھ زیادتی قرار دیا۔
اس ساری کھچڑی کو پکا کر اہل جنوں چاہتے کیا ہیں؟
اسے محبت کا زمزمہ نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔
ان حالات میں پاکستان کے لوگوں کو سوچ سمجھ کر چلنا ہو گا
کسی ایسی تحریک کا حصہ نہ بنیں جو اس ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو مزید دھچکہ لگا دے۔
نوجوانوں کو سوچنا ہو گا کہ یہ جو مشکلات ہیں ان کو پیدا کرنے والے کون ہیں؟کس نے مہنگائی کرائی کون اس ملک کے اثاثوں کو فروی رکھ گیا۔اگر یہ نئے ٹیکس جو لگائے جا رہے ہیں یہ نہ لگائے جائیں تو اس کے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کے لوگو! اگر اس ملک کو زرداری اور نواز شریف فضل الرحمن اور اسفند یار ولی نے نہیں لوٹا تو مجھے بتائیں کیا یہ قاضی حسین احمد عمران خان نے لوٹا ہے؟سرے محل ایوین فلیڈز کی جائدادیں کس نے بنائی ہیں؟کیا یہ قیمتی پراپرٹیفرید پراچہ کی ہے میری ہے سیف اللہ نیازی کی ہے کون ہے جو اس قومی دولت پر امین بنا کر بٹھایا گیا تھا اور اس نے خیانت کی؟
مجھے ان پڑھے لکھے لوگوں پر دکھ ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ نتقام ہے حجور انتقام کیوں کہتے ہیں؟زرداری ،بلاول،اور شہباز شریف کی اسمبلی کی تقریرں اٹھا کر دیکھ لیں یہ تو عمران خان کو کہتے تھے قدم بڑھائیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔لیکن ساتھ ہی کہتے تھے ہماری لوٹی ہوئی دولت کی بات نہیں کرنا۔
نیب نے دو بڑوں کو گرفتار کر لیا ہے اچھی بات ہے لیکن کیا کیس اسی طرح کا بنایا ہے کہ ایون فیلڈز کی جائیدادوں کی قیمت گوگل کر لیں اگر ایسا ہے تو یہ بڑا مذاق ہو گا۔
قوم کو ان چہروں کو جیل میں دیکھ کر خوشی تو ہوئی ہے مگر پاکستان کے بائیس کروڑ عوام چاہتے ہیں کہ ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس ملے۔قوم کو پیسہ چاہئے جس سے وہ خط غربت سے اوپر اٹھے
پاکستان کے لوگوں کو چھوٹے صوبے دیں جنوبی پنجاب بنے ہزارہ صوبہ بنے اور جہاں جہاں انتظامی بنیادوں پر صوبے بن سکیں بنائیں
زرداری کا بھاری پن تو گرفتاری سے ہی ہلکا ہو اگیا ہے۔میں نے جب یہ خبر سنی کہ دوسرے ابا جی بھی گئے تو سوچا کہ میرے رب تو ہی سب پے بھاری ہے۔
مجید نظامی مجھے اچھے لگتے ہیں پتہ نہیں کس موڈ پر اسے مرد حر کہہ گئے اور ان کے یہ دو الفاظ بمبینو سینمے کے اس بلیکئے کو عزت دے گئے۔بلیکیا کبھی عزت نہیں پاتا گجرانوالہ کا ایک حاجی بلیک ہوا کرتے تھے دنیا سے گئے برسوں بیت گئے مگر اولاد آج بھی حاجی بلیکئے کی کہلاتی ہے اور انہیں جائے پناہ بھی نون لیگ میں ہی ملتی ہے۔تھوڑا کھائو حلا ل کھائو۔ایک بیٹی شہر گھما کر جیل چھوڑنے گئی دوسری نے باپ کا ماتھا چوما گویا ابا جی حج پر جا رہے ہیں۔۔۔۔
زرداری صاحب نے نیب کے چیئرمین کو ایک بڑے کیس میں
پھنسانے کی کوشش کی لیکن اس بندے نے بھی کام کر کے دکھا ہی دیا۔یہ الگ بات ہے مجرمانہ سرگرمیوں میں پکڑے جانے والے قومی خائن کبھی نیلسن منڈیلا نہیں بن سکتے۔زرداری کی گرفتاری ایک الارم ہے۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟مہاشے سے اب کوئی پوچھے بھاری کون؟

اپنا تبصرہ بھیجیں