سید علی گیلانی: ”ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے“

”ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے“ نعرے کے خالق معروف کشمیری حریت پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی 92 سال کی عمر میں سرینگر میں اپنے آبائی گھر میں انتقال کر گئے۔

92 سالہ سید علی گیلانی کچھ عرصے سے بیمار اور مختلف جسمانی عوارض میں مبتلا تھے۔ ان کے دل کے ساتھ پیس میکر لگا ہوا تھا۔ ان کا پِتہ اور ایک گردہ نکالا جاچکا تھا جبکہ دوسرے گردے کا بھی تیسرا حصہ آپریشن کر کے نکالا جاچکا تھا۔

25 سال تک مختلف بیماریوں اور کئی دہائیوں تک کشمیرپر ہندوستان کے قبضے کے خلاف لڑتے رہنے والے کشمیر میں مزاحمتی تحریک کے سب سے قدآور راہنما سید علی گیلانی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 کو جموں وکشمیر کی تحصیل بانڈی پورہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک دیہاڑی دار مزدور تھے۔ ریاست جموں وکشمیر میں 1932 میں ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی تو علی گیلانی کی عمر تین سال تھی۔ اس لحاظ سے علی گیلانی اور کشمیر میں مزاحمت کی تحریک ساتھ ساتھ پلے بڑھے۔

لاہور کے اورینٹل کالج کے فارغ التحصیل سی علی گیلانی کشمیر میں مزاحمت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ وہ برس ہا برس بھارت کی جیلوں میں قیدِ تنہائی میں رہے اور ذہنی و جسمانی تشدد کا شکار ہوئے۔

1949 میں ان کا بحیثیت استاد تقرر ہوا اور مستعفی ہونے سے پہلے 12 سال تک وہ کشمیر کے مختلف سکولوں میں خدمات انجام دیتے رہے۔ 1953 میں وہ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ وہ پہلی بار 28 اگست 1962 کو گرفتار ہوئے اور 13 مہینے کے بعد جیل سے رہا کیے گئے۔

سید علی گیلانی 1962 میں پہلی بار قید ہونے والے سید علی گیلانی سے اب تک کل ملا کر 25 سال کے لگ بھگ جیلوں میں گزار چکے ہیں۔

https://twitter.com/Jalalmughal/status/1433283151728627714

بھارتی حکومت نے اپریل ۱۹۹۰ء میں سید علی گیلانی کو ایک بار پھر انہیں گرفتا ر کر لیا اور مبینہ طور پر جائنٹ انٹروگیشن سینٹر میں کئی ماہ تک تشدد کا نشانہ بنایا۔ بعد انہیں کچھ عرصہ اتر پردیش کی الہ باد جیل اور پھر دہلی کی تہاڑ جیل اور بعد ازاں جموں کی جیل میں منتقل کر دیا۔

انہوں نے کم از کم گیارہ کتابیں لکھیں جن ان کی خودنوشت سوانح حیات روداد قفس 1993 میں جبکہ وولر کنارے: آپ بیتی 2012 میں شائع ہوئی۔

دو جلدوں پر مشتمل ان کی خود نوشت سوانح حیات رُودادِقفس میں انہوں نے لکھا کہ میں عشروں سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے مظالم برداشت کرتے ہوئے دراصل پاکستان، نظریہ پاکستان اور الحاقِ پاکستان کی جنگ لڑ رہا ہوں۔

مجموعی طور پر انہوں نے اپنی زندگی کا 14 سال سے زیادہ کا عرصہ جموں و کشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں گزارا جبکہ گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے وہ اپنے گھر میں نظربند تھے۔

گیلانی کشمیر میں 15 سال تک اسمبلی کے رکن رہے۔ وہ اسمبلی کے لیے تین بار 1972، 1977 اور 1987 میں سوپور کے حلقے سے جماعت اسلامی کے مینڈیٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے 30 اگست 1989 کو اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا۔

سید علی گیلانی نے جماعت اسلامی میں مختلف مناصب بشمول امیر ضلع، ایڈیٹر اذان، قائم جماعت اور قائم مقام امیر جماعت کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔ وہ 30 سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔

جماعت اسلامی کے بعد سید علی گیلانی نے تحریک حریت میں شمولیت اختیار کرلی۔

انہوں نے جموں و کشمیر میں مزاحمتی حامی جماعتوں کی ایک جماعت ’کل جماعتی حریت کانفرنس‘ کے ایک دھڑے کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، تاہم گذشتہ برس جون میں انہوں نے اس فورم سے مکمل علیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔

دو صفحات پر مشتمل اس تفصیلی خط میں سید علی گیلانی نے کسی کا نام لیے بغیر حریت کانفرنس کی اکائیوں کے قائدین پر نظم شکنی اور مالی بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا۔

کسی کا نام لیے بغیرانہوں نے حریت کے قائدین اور کارکنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے لکھا ’تاریخی قدغنوں اور زیرِحراست ہونے کے باوجود میں نے آپ حضرات کو بہت تلاش کیا، پیغامات کے ذریعے رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کی مگر کوئی بھی کوشش بار آور ثابت نہیں ہوئی اور آپ تلاش بسیار کے باوجود دستیاب نہیں ہوئے۔‘

 ’مستقبل کے حوالے سے لائحہ عمل پیش کرنے اور ان حالات میں قوم کی رہنمائی کرنے میں میری صحت اور نہ ہی ایک دہائی کی حراست کبھی میرے سامنے حائل ہوئی۔ آج جب آپ کے سروں پر احتساب کی تلوار لٹکنے لگی، جوابدہی کی تپش محسوس ہونے لگی، مالی بے ضابطگیوں سے پردہ سرکنے لگا اور اپنے منصب چھِن جانے کا خوف طاری ہوا تو وبائی مارا ماری اور سرکاری بندشوں کے باوجود آپ حضرات نام نہاد شوریٰ اجلاس منعقد کرنے کے لیے جمع ہوئے اور اپنے نمائندوں کے غیر آئینی فیصلے کی حمایت اور تصدیق کر کے یکجہتی اور یکسوئی کی انوکھی مثال قائم کی اور اس ڈرامے کو اپنے چہیتے نشریاتی اداروں کے ذریعے تشہیر دے کر انہیں بھی اس گناہِ بے لذّت میں شریک کیا۔‘

واضح رہے کہ ’حریت کانفرنس‘ کے دو دھڑے ہیں۔ ایک دھڑا جو حریت کانفرنس (گ) کہلاتا ہے اس کی باگ ڈور سید علی گیلانی کے ہاتھوں میں تھی جبکہ دوسرا دھڑا جو حریت کانفرنس (ع) کہلاتا ہے، کی قیادت میرواعظ مولوی عمر فاروق کر رہے ہیں۔

پانچ اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سید علی گیلانی نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپیل کی تھی کہ بھارت کے اس یکطرفہ اقدام  جواب میں وہ تاشقند ، شملہ اور لاہور معائدوں کو تحلیل کرنے کے علاوہ لائن آف کنٹرول کو دوبارہ سیز فائر لائن قرار دیں۔

وزیر اعظم عمران خان کے نام خط میں سید علی گیلانی نے لکھا کہ، ‘یہ ایک نازک صورتحال ہے۔ ممکن ہے کہ یہ آپ سے میری آخری اپیل ہو ، خراب صحت اور بڑھاپامجھے دوبارہ آپ سے مخاطب ہونے کی اجازت نہ دیں۔’

‘چونکہ انڈیا نے تمام دوطرفہ معائدوں کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیا ہے، لہذا پاکستان کو بھی معاہدہ تاشقند ، شملہ اور لاہور کی تمام شقوں سے دستبرداری کا اعلان کرنا چاہئے۔’

تاہم وزیر اعظم کی جانب سے اس اپیل کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں