13جولائی 1931کو جب سری نگر سنٹرل جیل کے احاطے میں غاصب ڈوگرہ مہاراجہ سے بغاوت پر اکسانے کے مقدمے میں گرفتار نوجوان عبدالقدیر کے مقدمے کی سماعت کے لیے جمع ہونے والے ہجوم پر ڈوگرہ سامراج کی پولیس کی فائرنگ سے 22فر زندان اسلام نے جام شہادت نوش کرتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کا افتتاح کیا تھا، سید علی گیلانی اس وقت دو سال کے تھے۔ گیلانی اور تحریک آزادی دونوں ساتھ ساتھ پلے بڑھے ہیں۔سید کو تحریک آزادی سے عمر میں دو سال بڑے ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ گزشتہ صدی کے نصف اول کی بات ہے۔
29ستمبر 1929کوزوری منس تحصیل بانڈی پورہ، نہر زینہ گیر کی کھدائی کرنے والے ایک مزدور سید پیر شاہ گیلانی کے گھاس پھوس کے جھونپڑے میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کانام سید علی گیلانی رکھا گیا۔ خدا جانے یہ محض اتفاق تھا یا پیر شاہ گیلانی کی بصیرت مستقبل کے پردوں میں جھانک رہی تھی کہ اس بچے کا نام کشمیر میں اولین تحریک اسلامی کے داعی و قائد سید علی ہمدانی ؒ کے نام پر رکھا گیا۔ اس بچے نے بڑے ہو کر سید علی ہمدانی ؒ کے نام کی لاج رکھی اور ان کا حقیقی جانشین بننے کا اعزاز حاصل کیا۔شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ اےک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ بڑا ہوکر اپنی درماندہ و تباہ حال قوم کو غلامی کے اندھےروں سے نکال کر آزادی کی منزل کی جانب رواں دواں کردے۔
سید علی گیلانی ابھی دو ہی برس کے تھے کہ1931ءمیں سری نگر سنٹرل جیل کے احاطے میں 22 فر زندان توحید نے اپنے خون سے تحریک آزادی کشمیر کے پہلے باب کی رسم افتتاح ادا کی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک دور و نزدیک تک پھیل گئی۔ سید علی گیلانی نے شعور کی آنکھ کھولی تو آزادی کی تحریک جوبن پر تھی۔ ڈوگرہ استعمار کے خلاف بغاوت کے الاﺅ ہر سو دھک رہے تھے۔ تکبیر کے نعرے تھے اور آزادی کے ترانے تھے۔ علی گیلانی بھی اپنا ننھا ہاتھ بلند کر کے توتلی زبان میں نعرہ تکبیر بلند کرتا تھا۔ آذادی ان کو گھٹی میں پلائی گئی۔ بچپن اور لڑکپن کا دور انہوں نے اس تحریک میں ایک کارکن کی حیثیت سے شریک ہو کر گزارا۔ سید علی گیلانی نے ابتدائی تعلیم پرائمری سکول بوٹنگو، سوپور سے حاصل کی۔ میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول سوپور سے کیا۔ اس کے بعد آپ نے حصول تعلیم کے لیے لاہور کا سفر اختیار کیا اور اسلامیہ کالج لاہو ر سے ادیب عالم کا امتحان پاس کیا۔ ادیب فاضل اور منشی فاضل کی ڈگریاں کشمیر یونیورسٹی سری نگر سے حاصل کیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ ریاست کے محکمہ تعلیم سے بطور استاد وابستہ ہو گئے۔
1947ءکا سال جہاں برصغیر پاک و ہند کے باشندوں کے لیے آزادی کا پیغام لایا اور ہندوستان اور پاکستا ن کے نام سے دو بڑی طاقتیں آزاد حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھریں وہاں یہ سال بد قسمت ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے لیے ایک نئی، تازہ دم اور سفاک تر غلامی کا پیش خیمہ ثابت ہو ا۔ آزادی کی منزل، جس کے لیے ایک عرصے سے اسلامیان وطن قربانیاں دیتے آئے تھے، اندھیروں میں گم ہو گئی تو نو عمر سید علی گیلانی پر اس سانحے کا بڑا گہرا اثر ہوا۔ ہر چند شیخ عبداللہ اور اس کے قوم پرست مصاحبین قرآن اٹھا کر لوگوں کو یقین دلاتے رہے کہ ان کی گردن میں جو پھندا ڈالا گیا ہے وہ غلا می کا طوق نہیں بلکہ آزادی کا تمغہ ہے لیکن سید علی گیلانی، شیخ عبداللہ کی اس منطق کو قبول کرنے پر تیار نہ ہو سکے۔ وہ سوچتے رہے، کیا 1931ءکے شہیدوں نے قربانی اس لیے دی تھی کہ ڈوگر ہ استعمار کی جگہ برہنی سامراج کشمیر کو اپنی گرفت میں لے لے ؟ کیا یہ ساری قربانیاں بھارتی فوجوں کی سنگینیوں کے سائے میں شیخ عبداللہ کو کشمیر کا حکمران بنانے کے لیے دی گئی تھی؟ وہ سوچتے رہے اور کڑھتے رہے۔ بھولی بھالی قوم کے ساتھ شیخ عبداللہ اور اس کے حواریوں کا یہ دوسرا دھوکہ تھا۔ پہلا ھوکہ 1938ءمیں مسلم کانفرنس کا نیشنل کانفرنس میں انضمام تھا۔ جس کے نتیجہ میں آزادی کشمیر کی تحریک / منرل کھو کر بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ گئی۔ شیخ عبدا للہ اور ہر ی سنگھ کی ملی بھگت سے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق دوسر ا عظیم فراڈ تھا، کھلی غداری تھی۔
کیا کشمیر اب دوسرا اندلس بنے گا؟ کیا اب یہاں سپین کی تارےخ دہرائی جائے گی؟ کیا بخارا اور سمر قند کی طرح یہاں سے بھی اسلامی تہذیب کو دیس سے نکال دیا جائے گا؟ مستقبل کے پر دوں میں چھپے ہوئے ان مہیب خطرات کی آہٹیں سید علی گیلانی کے اندر کی دنیا کو زیرو زبر کئے ہوئے تھیں۔ ان خطرات کا مقابلہ کون کرے گا؟ لڑکپن اور جوانی کے سنگھم پر کھڑے سید گیلانی کے لیے یہ اضطراب انگیز سوال چیلنج بن گیا۔ وطن کے جن اصحاب اخلاص پر نگاہ رکتی تھی اور اس طوفان کے آگے بند باندھنے کی امید کی جا سکتی تھی، وہ ریاست سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے تھے۔ ان میں چودھری غلام عباس اور میرواعظ مولوی محمد یوسف شاہ جیسی قد آور سیاسی شخصیات بھی شامل تھیں۔ مایوس کن حالا ت میں سید علی گیلانی کی رسائی مولانا سید ابو الا مودودی ؒ کے لٹریچر تک ہو ئی تو انہیں اندھیرے میں روشنی کی کرن نظر آگئی۔انہیں اپنے ہر سوال کا جواب مل گیا۔ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی اور نظام اسلامی کے احیاءکے لیے سید مودودیؒ نے اپنے افکار و کردار سے جہد مسلسل کا جو راستہ اختیار کیا تھا۔ جناب سید علی گیلانی نے اسی راستے کو اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی دوران تحریک اسلامی جموں و کشمیر کے درویش صفت امیر جنا ب مولانا سعد الدین سے ان کی ملاقات ہوئی، تو وہ سید مودودیؒ کے لٹریچر کے بعد مولانا سعد الدین کے فیضان نظر کے قائل ہو گئے۔ یوں جنا ب سید علی گیلانی اس قافلہ عشاق میں شامل ہو گئے، جسے جماعت اسلامی کہا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی میں شمولیت کے ساتھ ہی سید علی گیلانی کو اپنے تمام سوالوں کا جواب مل گیا۔وہ جماعت اسلامی کی انقلابی دعوت اور اسلامی نظام حیات کے قیام کے لیے دیوانہ وار سرگرم عمل ہو گئے۔ جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے ریاست پر بھارتی تسلط کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ جماعت اسلامی کے قائدین ہمیشہ اپنی گرمئی گفتار سے ریاست پر بھارتی قبضے کو توڑتے رہے۔ حق گوئی و بے باقی کے جرم میں جماعت اسلامی کے قائدین اور کارکنوں کو بارہا جیلوں میں دھکیلا جاتا رہا لیکن جماعت اسلامی آزمائش کی ہر بھٹی سے کندن بن کر نکلتی رہی۔
ابتلا کی بھٹی سلگائی گئی تو سید علی گیلانی سب سے بڑھ کر تعزیر و تعذیب کے مستحق ٹھہرے کہ انہوں نے بھارتی استعمار کو زیادہ جرات اور زیادہ بلند آواز سے للکارا تھا۔ انہوں نے ہر بار یہ بات دو ٹوک انداز میں کہی: ”میں بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو نہیں مانتا۔ میں بھارتی سامراج کا باغی ہوں اور اس بغاوت کے جرم میں مجھے پھانسی کے پھندے کو بھی چومنا پڑا تومیں اسے اپنی سعادت سمجھوں گا“۔جناب سید علی گیلانی کی یہ جرات اور بیباکی بھارتی حکمرانوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی چلی گئی۔ 28 اگست 1962ءکو پہلی بار انہیں گرفتار کر کے پس دیوار زندان پہنچا دیا گیا۔ جہاں وہ ایک سال ایک ماہ تک مقید رہے۔ یہ دارو گیر کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا نقطہ آغازتھا۔اس کے بعد تو جیل سید علی گیلانی کا مسکن، ہتھکڑی زیور اور زنجیر کی کھنکھناہٹ آزادی کا ترانہ بن گئی۔ اور ان کی سیاسی زندگی کا ہرتےسرا دن جیل میں گزرنے لگا۔
جیل میں ایک اور مرد درویش جناب حکیم مولانا غلام نبی بھی موجود تھے جو بعد میں امیر جماعت اسلامی (مقبوضہ)جموں و کشمیر بھی رہے۔ ان کی قربت نے سید علی گیلانی کی علم کی پیاس بجھائی اور انہیں عمل کے اسلحے سے لیس کیا۔ یہ عرصہ گیلانی صاحب کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ مولانا حکیم غلام نبی کے علم و تقوی نے آپ کی زندگی میں گہرے نقوش ثبت کئے۔ اسی اسیری کے عرصے میں آپ کے والد گرامی کی وفات ہوئی، لیکن آپ کو والد ماجد کا آخری دیدار کرنے کی اجازت بھی نہ دی گئی۔ وہ اپنے محبوب باپ کے جنازے کو کندھا بھی نہ دے سکے۔ جیل سے رہائی کے بعد آپ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے سیکرٹری جنرل بنا دیے گئے۔ جیل کی سختیوں اور قید و بند کی صعوبتوں نے آپ میں بھارتی تسلط کے خلاف بغاوت کے جذبات کو اور بھی بھڑکا دیا تھا۔ اب وہ پہلے سے زیاوہ بلند آہنگ میں آزادی کی صدا بلند کرنے لگے۔ و ہ پوری یکسوئی سے ہندوستانی استعمار سے رائے شماری کرانے کا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ عوام کو آپ نے حق خودارادیت کے حصول کے لیے تیار، بیدار اور ہوشیار کرنا شروع کیا۔
1965ءمیں پاکستان کے مشہور زمانہ ”آپریشن جبرالٹر“ سے کچھ ہی عرصہ پہلے7 مئی1965ءکو سید علی گیلانی کو پھر گرفتار کر لیا گیا۔ باور کیا جاتا ہے کہ بھارتی حکمرانوں کو اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے اس آپریشن کی بھنک پڑچکی تھی۔ ان کے خیال میں پاکستانی حملے کی صورت میں سید علی گیلانی ہی پاکستانی کمانڈوز کو اندرون کشمیر ہر ممکن مدد فراہم کر سکتے تھے، لہٰذا ”آپریشن جبرالٹر“ کو ناکام بنانے کےلئے جناب گیلانی کی گرفتاری ضروری تھی۔ ”آپریشن جبرالٹر“ کی ناکامی کی وجوہ میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مقبوضہ کشمیر میں رائے عامہ کو بیدار اور منظم کر کے مجاہدین کی پشت پر لا کر کھڑاکرنے والی قیادت میسر نہ تھی۔ سید علی گیلانی میدان میں موجود ہوتے تو اس کمی کو احسن انداز سے پورا کر سکتے تھے۔ لیکن آپریشن جبرالٹر کے ”شاہ دماغ“منصوبہ سازوں کو شاید صورت حال کے اس پہلوکی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا۔
سید علی گیلانی کی رہائی 1967ءمیں اس وقت عمل میں آئی جب آپریشن جبرالٹر کا طوفان تھم کر حالات بظاہر پر سکون ہو گئے تھے۔ رہائی کے فوراََبعد سری نگرمیں ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں سید علی گیلانی نے ایک بار پھر اپنے عزم آزادی کا بیانگ دہل اظہار کر کے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دیں۔پریس کانفرنس میں آپ نے فرمایا: ”بھارت نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو اقوام متحدہ میں تسلیم کر رکھا ہے اور ہماری بھی کوشش یہی ہے کہ اس مسئلے کو سیاسی انداز میں ہی حل کیا جائے۔ خود بھارت کا مفاد بھی اسی میں ہے۔ لیکن اگر بھارتی حکمرانوں نے مزید ٹال مٹول سے کام لیا تو کشمیری کسی دوسرے راستے کا انتخاب کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔“ جب شیخ عبد اللہ اور اس کے حواری بتدریج رائے شماری کے مطالبے سے پسپائی اختیار کرنے لگے، شیخ نے 1973ءمیں اندرا گاندھی کے ساتھ گٹھ جوڑکر کے بھارئی قبضے پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ یوں وزارت اعلیٰ کی کرسی کے عوض کشمیریوں کے حق آزادی کاایک بار پھر سودا کر کے ”شیر کشمیر“غدار چہرے کے ساتھ سامنے آگیا۔ اب شیخ عبد اللہ اور اس کے مصاحبین کے تیورہی بدل گئے تھے۔ جو کل تک رائے شماری کے لیے لڑنے مرنے کی قسمیں کھاتے تھے، اب کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کو”اٹل حقیقت “اور کشمیر کو بھارت کا ”اٹوٹ انگ“ ثابت کر انے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔اس موقع پر بھی سید علی گیلانی نے ہی قوم کے جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔
گیلانی صاحب طویل عرصہ جموں و کشمیر اسمبلی کے ممبر، جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر اورمقبوضہ ریاستی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی رہے۔ 1987 میں آپ ہی کی قیادت میں مسلم متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے بھارت کے خلاف اور آزادی کے لیے انتخابی معرکہ لڑا گیا جس میں بھارتی فوج اور انتظامیہ نے شدید دھاندلی کے ذریعے محاذ کی فتح کو شکست میں تبدیل کیا گیا۔ گیلانی صاحب سمیت صرف چار ممبران کامیاب ہو سکے۔ اس الیکشن میں موجودہ حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین بھی سرینگر سے مقبول ترین امیدوار تھے۔ یاسین ملک، جاوید میر اور دیگر نوجوان، جن کے ذریعے آئی ایس آئی نے بعد میں لبریشن فرنٹ قائم کروائی، سید صلاح الدین صاحب کے پولنگ ایجنٹ تھے۔
مسلح تحریک نے زور پکڑا تو سید علی گیلانی سمیت مسلم متحدہ محاذ کے ممبران اسمبلی نے انتخابی سیاست سے دستبردار ہو کر تحریک آزادی کو نئی جہت دی۔ گیلانی صاحب کی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی جیلوں میں گزرا ہے۔ اس وقت بھی اکیانوے سال کی عمر میں گھر پر نظربند ہیں اور باہر فوج کا پہرا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ باقی ساری حریت قیادت تحریک کا پراڈکٹ ہے جسے حالات یا مہربان طاقتوں نے تخلیق کیا ہے جبکہ یہ تحریک خود سید علی گیلانی کا پراڈکٹ ہے۔ گیلانی صاحب نے اسے اپنے خون جگر سے سینچا ہے۔
آج وہ عظیم قائد 92 سال کی عمر میں اپنی مظلوم قوم کو داغ مفارقت دے کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔
انا للہ و انا الیہ راجعون