مزاحمت، جدوجہد اور کشمکش کا استعارہ بابائے آزادی سیّد علی گیلانی بھی اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے۔ وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ نوے کی دہائی میں کشمیر میں شروع ہونے والی آزادی کی تحریک میں علی گیلانی نے رفتہ رفتہ ایسا رنگ جمایا کہ سب ہی ان کے رنگ میں رنگ گئے۔
گزشتہ اٹھائیس برسوں سے علی گیلانی کے زیادہ تر شب وروز جیلوں یا نظربندی میں بیتے۔ لوگوں نے ان کے ساتھ جینے اور مرنے کا عہد کیا۔ شیخ عبداللہ کے بعد کشمیریوں نے اگر کسی ایک شخصیت کی پوجا کی تو اس کا نام علی گیلانی ہے۔ نوے کی دہائی میں کشمیری نوجوانوں نے آزادی کا پرچم لہرایا تو علی گیلانی مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے رکن تھے۔ ان کی جرأت رندانہ کے اپنے پرائے سبھی قائل تھے۔ وہ بھارت کو دلی سرکار کہہ کر مخاطب کرتے اور اسے یاد دلاتے کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا وعدہ بھارتی جمہوریت کے معمار پنڈت جواہر لال نہرو نے کیا تھا۔ قید و بند کی صعوبتیں اٹھاتے۔
سری نگر کے حیدر پورا میں ان کی رہائش گاہ پر اس طالب علم کو ان سے تین چار بار گفتگو کا موقع ملا۔ نوے کی دہائی میں انہوں نے اسمبلی سے استعفے دیا اور پھر مڑکر بھی پیچھے نہ دیکھا۔ پابند سلاسل ہوئے۔ ہر طرح سے ان کا راستہ روکا گیا ،تشدد کا سامنا کیا حتیٰ کہ ان کے عزیرواقرابا کو بھی جیل کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑا مگر اس مرد درویش کے پائے استقلال میں کبھی کوئی لغزش نہ آئی۔
آزادی اور پاکستان کا ورد کرتے کرتے وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے، بھارت کی سرکار نے گیلانی کو خریدنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔دباؤ جس قدر بڑھتاگیا گیلانی کا جذبہ حریت اور پختہ ہوتاگیا۔ چنانچہ بھارتی حکام کہتے کہ گیلانی کبھی بدل نہیں سکتا۔گیلانی نے پاکستان کو کشمیریوں کے لیے بھارت کے متبادل آپشن کے طور پر اس طرح متعارف کرایا کہ پڑھے لکھے نوجوان اس کے پرچم میں لپٹ کر سفر آخرت پر روانہ ہونے کی وصیت کرنے لگے۔ کشمیر کے گلی وبازار میں لوگ پاکستان کے ساتھ جس طرح کی محبت کا اظہار کرتے ہیں کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
اہل پاکستان نے بھی گیلانی سے ٹوٹ کر محبت کی۔ سرکار ہو یا عام لوگ گیلانی کا نام آتا تو نگاہیں احترام اور عقیدت سے جھک جاتی ہیں۔ انہیں پاکستانیوں نے اس طرح چاہا کہ جیسے کوئی اسی دھرتی کی کوکھ سے نکلا ہو۔
جیسے کہ اپنے ہی جسم کا ایک ٹکرا ہو۔ اگرچہ وہ اوّل وآخر مذہبی شخصیت تھے ۔ گزشتہ تیس برسوں سے ان کا اوڑھنا بچھونا یعنی کل کائنات تحریک اورآزادی تھی۔پاکستان اور اسلام کا دم بھرتے تھے ۔ اپنی مذہبی سوچ اور سیاسی فکر کے برعکس ذہن رکھنے لیڈروں کے ساتھ بھی اشتراک کیا۔ اتحادوں کی سیاست کی اور مخالفین کو بھی ساتھ چلانے کی کوشش کی۔ سید علی گیلانی کے حکم پر کشمیر کے گلی وبازار سنسان ہوجاتے۔ دکانوں اور سکولوں پر تالے پڑھ جاتے۔ اس قدر پذیرائی کہ اکثرسیاستدان صرف اس کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔کوئی دس برس پہلے کی بات ہے کہ بینکاک میں کشمیر پر ایک کانفرنس تھی کشمیر کے سیاسی مستقبل پر گرماگرم بحث ہورہی تھی کہ کچھ شخصیات کا کہنا تھا کہ فاروق عبداللہ، مفتی محمد سعید اور میر واعظ عمر فاروق کسی ایک نکتے پر متفق ہوجائیں تو یہ قصہ تمام ہوسکتاہے۔ ایک کشمیری پنڈت جو فاروق عبداللہ کے قریبی تھے نے کہا: کیوں اپنے آ ٓپ کو دھوکہ دیتے ہو۔ علی گیلانی ہڑتال کی کال دیتاہے تو کالا کتا بھی گلی میں نہیں نکلتا۔ انہیں مذاکراتی عمل میں شامل کرنے کی راہ تلاش کرو۔
2007تک پرویز مشرف اور من موہن سنگھ کے درمیان کشمیر پر بیک ڈور ڈپلومیسی عروج پر تھی۔ یہ طالب علم ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے سری نگر گیا۔ سوپور، جسے بھارتی میڈیا منی پاکستان قراردیتاتھا، دیکھنے کی خواہش کا ذکر ایک دوست سے کیا۔ انہوں نے سوپور کے ایک مقامی ہوٹل میں کھانے کا اہتمام کیا۔ دوران گفتگو اس نے سید علی گیلانی کو اس شدت سے تنقید کا نشانہ بنایا کہ میں حیران رہ گیا۔ استفسار کیا تو کہنے لگا کہ شہر میں پوسٹر دیکھے ہیں کہ گیلانی یہاں کوئی بڑا جلسہ کررہے ہیں کیا لوگ جلسے میں جائیں گے۔ کہنے لگا کہ گیلانی سوپور کے لوگوں کی رگوں میں دوڑتاہے۔ سب جلسہ میں جائیں گے۔ اہل سوپور ان کو محض مانتے نہیں بلکہ وہ ان کی پوجاکرتے ہیں۔
افسوس! بھارت نے ان کی حیات کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ دہلی ان کے یا ان کی موجودگی میں مذاکرات کرتا تو مسئلہ کا کوئی قابل قبول حل تلاش کرنا آسان ہوتا۔ قد آورلیڈر منظر سے ہٹ جائے تو تنازعات کا حل اور زیادہ پیچیدہ ہوجاتاہے۔ گیلانی خطرات مول لینے والے اور پاکستان کی قیادت کے سامنے بھی ڈٹ کرکھڑے ہونے کا دم خم رکھتے تھے۔ پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جو فارمولہ پیش کیا وہ گیلانی صاحب کو ایک آنکھ نہیں بھایاتھا۔ دونوں میں خوب ٹھن گئی۔ دلی کے پاکستان ہائی کمشن میں نوبت تلخی تک جاپہنچی۔ آوازیں غیر معمولی طور پر بلند ہوگئی۔ مشاہد حسین نے بتایا کہ انہوں نے گیلانی صاحب کو روکنے کی بے سود کوشش کی۔ عالم یہ تھا کہ گیلانی اور مشرف ایک دوسرے کو گرم جوشی سے اللہ حافظ بھی نہ کہہ سکے۔
ہائی کمیشن کا عملہ حیران و پریشان تھا۔۔ٓج تک انہوں نے کبھی کوئی ایسا کشمیری دیکھا نہ سنا تھا جو اس قدر بے خوف ہو۔ خبر سری نگر پہنچی کہ جنرل مشرف گیلانی سے ناراض ہوگیا کشمیریوں کو پہلی بار لگا کہ کوئی ہے مرد حر جو اپنی مرضی سے سوچنے اور بولنے کی صلاحیت اور جرأت بھی رکھتا ہے۔ پاکستان سے محبت کے باوجود کشمیریوں کے حق کے لیے ڈٹ سکتاہے۔ گیلانی کی بہادری کے قصے چار سو پھیل گئے اور ان کی لیڈر شپ امر ہوگئی۔
گیلانی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔جس طرح رات کی تاریکی میں ان کا جنازے اٹھایا گیا اس نے بھارت کے منہ کالک مل دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کا آج ہر پیر وجواں بھارت کے طرزعمل سے بے زار اور شاکی ہے۔ سید علی گیلانی کی آواز چار سو گونج رہی ہے۔ کشمیر کے گلی محلوں میں گیلانی کی روح تازہ ہوا بن کر پھیل گئی ہے۔ قابض حکام کووہ کبھی چین نہیں لینے دے گی۔ گیلانی کی بہادری اور استقامت کا چرچا اب لوک گیتوں کا حصہ بن چکاہے۔کوئی نہیں جو ان کی سیاسی غلطیوں کی نشان دہی کرے۔ ان کی شخصیت پر نقد کرے۔ وہ اس سب سے بہت اوپر اٹھ چکے۔ وہ اب کشمیریوں کے رومانس میں ڈھل چکے ہیں۔ وہ اب کشمیریوں کے ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر حریت پسند کے بابائے آزادی قرارپائے ہیں۔
رب ذولجلال کے سایۂ رحمت میں پناہ لے چکے۔ ان کی نظر بندی ختم ہوچکی۔ ان کی آزادی انہیں مل چکی لیکن ہمیں وہ عرصہ امتحان میں چھوڑ گئے۔ایک ا یسے امتحان میں جس سے فرار ممکن نہیں۔ ہم میں اب کوئی علی گیلانی نہیں۔ ٭٭٭
ارشاد محمود راولاکوٹ/اسلام آباد میں مقیم معروف کشمیری صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے سیکرٹری اطلاعات اور جموں و کشمیر لبریشن سیل کے ڈائریکٹر جنرل بھی ہیں۔