تحریر: محمدانصر صدیق خواجہ
زیر نظر تصویر آزاد کشمیر پولیس کے کسی تھانے کی ہے۔زمین پر بیٹھا شخص بھلے چور ہے ڈاکوہے یا منشیات فروش ہمارا مقصد کسی بھی جرائم پیشہ فرد کے ہاتھ مضبوط کرنا نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ برائی سے ہی اچھائی برآمد ہوتی ہے کیا یہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونی چاہیے تھی یہ ایک الگ سوال ہے۔ لیکن صداقت یہی ہے جس میں سے مستقبل کی نشاندہی ہوسکتی ہے کشادگی کے بغیر صحن بڑا ہوسکتا ہے اور نہ ہی کھڑکیاں دروازے ناگزیر ہوتے ہیں۔معاشرے کا وجود تب تک نہیں ہوسکتا جب تک اس کے ارکان نظم وضبط کے قابل نہ ہوں اگر معاشرے کا ہر فرد اپنی خواہشات اور مرضی کے مطابق کام کرے تو انتشار کی فضاء جنم لیتی ہے۔ قانون کو مکڑی کا جالا نہیں ہونا چاہیے۔ جس میں کمزور پھنس جائیں اور طاقتور اُسے توڑ کر نکل جائیں۔ کسی بھی ریاست کے استحکام،خوشحالی کا سبب متعلقہ ریاست میں قانون پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد اور بلا تفریق انصاف کی فراہمی ہے۔ قانون شکنی کو روکنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اوپر سے لیکر نیچے تک کسی قسم کا فرق نہ رکھا جائے۔
عباسپور میں معصوم بچی کا کفن ابھی میلا نہیں ہوا تھا کہ باغ میں آٹھ سالہ معصوم بچے کو بے دردی سے قتل کرکے نعش جنگل میں پھینک دی گئی۔ آ خ تھو ہے ایسے بدکرداروں اور ان کے نگہبان محافظوں پر جنہیں انسانیت کی کوئی تمیز نہیں۔ حالات بہتری کا رخ کرنے کے بجائے ابتری کی طرف جارہے ہیں۔ روایتی تھانہ کلچر سے جان چھوٹتی دیکھائی نہیں دے رہی۔ امن قائم کرنا اب اولین فرض نہیں۔ مظلوم لوگوں کی داد رسی نہ کرنا پولیس کی روایت بن چکا ہے۔ پولیس کا امیروں اور غریبوں سے علیحدہ علیحدہ رویہ ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔۔۔۔۔؟مک مکا کرنا لوگوں کی تذلیل کرنا انہیں غلیظ گالیاں دینا بعض پولیس اہلکاروں کی وہ عادت ہے جس سے اب چھٹکار ا نہیں پایا جاسکتا۔ میں نے اکثر ناکوں پر کھڑے پولیس اہلکاروں کو دیکھا کہ وہ سامان کے بجائے جیب کی تلاشی خوب اچھے طریقے سے لیتے ہیں۔ تھانے میں معصوم شہریوں کو لے جاکر ان کی خدمت کرنا ہماری پولیس کے کارناموں میں سے ایک اہم کارنامہ ہے۔ اکثر اوقات بے گناہ شہریوں کو حبس بے جا میں رکھنا اور ان سے جرم کا اقرار کروانا جو انہوں نے کبھی کیا ہی نہیں ہماری پولیس کاوطیرہ ہے۔
ہمارے ہاں تو ریاست ہی منافقت کا شکار ہے ستر سال یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ ہمارے راستے کیا ہیں اور ہماری منزل کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟ہمارے مقاصد کیا تھے اور اب ہمارا مقصد کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟روسی کہاوت ہے کہ بیت الخلاء میں اپنی غلاظت کی بو نہیں آتی کیونکہ بیت الخلاء میں احساس مردہ ہوجاتا ہے۔ سو نکھنے کی صلاحیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ جس معاشرے میں میں اور آپ زندگی گزار رہے ہیں یہ بھی ایک بیت الخلاء ہے جہاں پر ہم اپنی غلاظت پھینک رہے ہیں۔ ستم ظریفی کی انتہاء یہ ہے کہ ہمیں دوسروں کی غلاظت نظر بھی آتی ہے اور اُسے اُٹھنے والا تعفن بھی محسوس ہوتا ہے ہم اُس سے محفوظ رہنے کیلئے اپنی ناک پر رومال بھی رکھتے ہیں سانس بھی روکتے، آخ تھو بھی کرتے ہیں۔ غلاظت پر لعنت بھی بھجتے ہیں لیکن اپنی غلاظت بارے کبھی نہیں سوچتے ہمیں یہ خیال نہیں آتا کہ کوئی دوسرا بھی اس پر آخ تھو کرسکتا ہے۔
شرم مگر ہم کو نہیں آتی۔۔۔۔۔ہم اپنا نقاب اُترانے کو تیار ہیں نہ گریبان میں جھانکنا ضروری سمجھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب کسی طاقتور کو اُس کے جر م کی سز ا نہ دی جائے تو سزا پورے معاشرے میں تقسیم ہوجاتی ہے۔طبقہ اشرافیہ کاقانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مضبوط ہوجانا قوم کے روبہ زوال ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ موجودہ پولیس نظام میں فرد واحد کو قصور وار نہیں ٹھہرا یا جاسکتا۔فرسودہ طور طریقوں پر مشتمل اس نظام میں اچھے قابل لوگ بھی آہستہ آہستہ روایتی پولیس کلچرکا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس وقت سب سے اہم کام عام لوگوں کے دلوں میں پولیس کا مثبت تاثر قائم کرنا ہے جوکہ کارکردگی کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ تو ایک تصویر ہے جو وائرل ہوگی روزانہ ایسے درجنوں واقعات ہمارے آزادکشمیرکے تھانوں کے اندر ہوتے ہیں۔ جن میں انسانیت کی بدترین تذلیل کی جاتی ہے۔ پولیس نظام میں سب سے پہلے سیاسی اثر ورسوخ کو ختم کرنا ضروری ہے۔ جب پولیس کے تقرروتبادلے چوہدریوں،راجوں،سردار وں کی ایماء پر ہونگے تو کیسے ان سے بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔
معاشرے اور حکومتیں انصاف کی فراہمی سے ہی قائم اور مضبوط رہتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں اس شہر میں بڑے بڑے قانون دان،دانشوروں صاحب رائے افراد کو بات بات پر اسلامی تاریخ اور ہیرو کی مثالیں دیتے ہوئے تھکتے نہیں دیکھا مگر دوسری جانب ان کا ایک عمل بھی اسلامی حصول اور تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔جرم اور جرائم کا خاتمہ اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا نہ کیا جائے۔میں نے اپنے بائیس سالہ صحافتی سفر میں کوئی دن ایسا نہیں دیکھا جس دن پولیس کی جانب سے بھاری منشیات پکڑنے کی خبر اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع نہ ہوئی ہو۔مگر میں نے اس عرصہ میں کبھی اُس منشیات کو تلف ہوتے دیکھا نہ ہی کسی بھی بااثر منشیات فروش کو سزا وجزا ء کے عمل سے گزرتے دیکھا یہ وہ تفریق ہے جو جرائم کے ہاتھ مضبوط سے مضبوط تر کررہی ہے۔
انسپکٹر جنرل پولیس نے عوامی شکایات کیلئے خصوصی سیل قائم کردیا جہاں وٹس ایپ کے ذریعے بھی آپ اپنی شکایت درج کراسکتے ہیں لیکن برادری اور علاقہ پرستی کے اس معاشرے میں کسی مظلوم کو انصاف مل جائے تو یہ بڑی بات ہوگی۔ ہم ان سطور کے ذریعے انسپکٹر جنرل پولیس آزادکشمیر کو یہ تجویز ضرور پیش کرتے ہیں کہ وہ شکایات سیل ضرور قائم کرے یقینا اس کے مثبت نتائج سامنے آئینگے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پولیس ملازمین کی بہترین ذہن سازی اور اخلاقی تربیت کے انتظامات بھی کریں تاکہ اس پورے محکمے کی سوچ بدلی جاسکے۔ہمارا بغیر تعارف کروائے پولیس کے تھانوں اور سر راہ اہلکاروں سے اکثر وبیشتر واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ جن سے اگر کوئی قانون پر عمل کی بات کی جائے تو وہ جواب غلیظ گالیوں کی صورت میں دیتے ہیں۔ ہم نے ایسی گندی گالیاں معاشرے کے عام آدمی سے نہیں سنیں جو ایک پولیس اہلکار قانون کی وردی پہن کر بکتا ہے۔ پولیس ملازمین کو جب اس بات کا ادراک ہوگا کہ کسی کو گالی دینا کتنا بڑا گناہ ہے اور انسانیت کی تذلیل نیک اعمال کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے سوکھی گھاس کو آگ تو یقینا اسکے نتائج بہترین برآمد ہونگے۔