چمنبہ گلی سے لیکر محمود گلی تک ضلع پونچھ کی خوبصورت تحصیل، شہیدوں اور غازیوں کی سر زمین عباس پور شہر کو اقتدار تو ملا مگر دہائیوں سےگونا گوں مسائل کا شکار اس شہر کے مسائل کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ 74 سالوں میں پہلی بار عباسپور سے سے تعلق رکھنے والے ممبر اسمبلی کا بطور وزیراعظم انتخاب عوام کی خوش قسمتی سمجھا جا رہا ہے تو دوسری جانب اس خطے کے مسائل روز بروز بڑھتے چلے جا رہئ ہیں۔ عباسپور سے وزیراعظم کے انتخاب کی خوشی میں جھومتے عوام قطار در قطار یہاں سے مظفرآباد اور اسلام آباد مبارکباد دینے پہنچ گئے۔ کہیں پھولوں کے گلدستے پیش ہوئے تو کہیں مالائیں اور ہار پہنائے گئے تو کہیں پھولوں کی پتیاں نچھاور ہوئیں۔ وزیراعظم کی انتخاب کی خوشیاں منانے میں مگن عباسپور کے عوام کو یہ احساس تک نہیں رہا کہ وہ بتدریج مسائل کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں اورعملاً لاوارث ہو چکے ہیں۔
دہائیوں سے مسائل کی دلدل میں دھنسے عوام کی امید بندھی تو ہے کہ عباس پور کو ممکنہ طور پر ضلع کا درجہ ملنے کے بعد یہاں کے مسائل میں کمی آئے گی مگر یہ ضلع کب بنے گا، فی الحال کوئی نہیں جانتا۔ اب کی بار پیدا ہونے والی صورتحال کچھ زیادہ ہی گھمبیر ہو گئی ہے۔ ضلع کے قیام تو فی الوقت ایک خواب ہے مگر فی الحال اس علاقے کا تحصیل والا درجہ برقرار رہنا بھی مشکل معلوم ہوتا ہے۔ عباسپور سے مرکزیت کے خاتمے کا نیا رنگ، نئے ڈھنگ کے ساتھ دیکھنے کو ملا کہ پہلے زمانے میں اکثر گھر کے باہر ہر چیز پڑی رہتی تو کوئی نہیں اٹھاتا تھا لیکن اب کی بار کچھ نئے انداز کے ساتھ عباسپور سے چیزیں غائب ہو رہی ہیں۔ تبدیلی کی چوریوں میں دن دیہاڑے اضافہ ہونے لگا، جن کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے۔
اے ڈی سی عباسپور سید ممتاز کاظمی کو پروموٹ کرکے ڈی سی پونچھ تعیناتی بھی نیک شگون ہے۔ لیکن اب تک نئے اے ڈی سی کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی گئی اور مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آ رہا۔ ایکسین برقیات کو معطل کردیا گیا۔ بجائے نئے ایکسین کی تعیناتی کے یہاں کے اختیارات ہجیرہ منتقل کر دیئے گئے۔ برقیات کا سٹور تک بھی غائب ہے۔ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال عباسپور بھی لاوارثی کی طرف رواں ہو گیا۔ پرانی ایمبولینس بھی غائب، تھانہ کچہری تک بھی لاوارث ہو گئے۔ تھانہ پولیس کی نئی گاڑی بھی غائب ہے، سیکرٹری حلقہ زیریں بھی غائب ہیں، سابقہ حکومت سے منظور شدہ 25 کلو میٹر سڑکوں کے ٹینڈر غائب ہیں۔ سابق وزیر حکومت چوہدری محمد یاسین گلشن کے بقول انہیں 25 کلومیٹر سڑکوں کے متعلق مجبوراً ہائی کورٹ سے حکم امتناعی لینا پڑا۔ 7 کلو میٹر سڑک مٹی پوسٹ تا چھاترہ موڑ بھی اب تک عدم تعمیر کا شکارہے۔ مزید نئے اور پرانے ہونے والے نوٹیفکیشن بھی مسلسل غائب ہوتے جا رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے عباسپور میں ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ عباسپور تھانے کی گاڑی یہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل کرکے ایک پرانا کٹھارہ گاڑی یہاں بھیج دی گئی۔ محکمہ برقيات کی آئے روز غفلت بجلی کے آنکھ مچولی کھیل، بلات میں اتنا اضافہ ہو گیا ہے کہ یہ غریب کی پہنچ سے دورہو گئی ہیں۔ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کی عمارت کو رنگ وروغن کرکے خوبصورت، دلکش تو بنادیا گیا، لیکن تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال عباسپور میں ابھی تک نہ بجلی کو بحال کیا گیا اور نہ ہی پانی کا بندوبست کیا گیا۔ بیچارہ اسٹاف اپنی روزی روٹی کی خاطر سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود بھی اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہے۔ گریٹر واٹر سپلائی کروڑوں کی لاگت کا منصوبہ سالوں سے تکمیل کا منتظر ہے۔ مقامی لوگوں کوپینے کا صاف پانی فراہم کرنا فی الحال ایک خواب ہی لگ رہا ہے۔ شہر کی اندرونی رابطہ سڑکیں کھنڈرکا منظر پیش کر رہی ہیں۔ دوسری طرف ڈیزل،پٹرول کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ، طلبا و طالبات، ملازم،اور غریب پبلک ٹرانسپورٹ میں بھاری کرائے ادا کر کے دھکے کھا رہے ہیں جبکہ حکومتی اہلکار روزانہ پروٹو کول پر لاکھوں اڑا رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی کرائے نامے کی اصل لسٹیں جاری ہونے کے باوجود ڈرائیور حضرات من مانے کرائے وصول کرتے رہے۔ ٹریفک پولیس زائد کرایوں کی روک تھام میں اب تک مکمل ناکام رہی ہے۔ ہجیرہ سے راولاکوٹ اتنی خوبصورت سڑک کی تعمیر جہاں گھنٹوں سفرمنٹوں میں طے ہونے لگا پھر بھی ڈرائیورز حضرات کی من مانی ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے۔
آٹھ اکتوبر 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کو 16 برس بیت گئے ہیں۔ اب تک سب ڈویژن عباسپور کے 135 سرکاری تعلیمی ادارے عدم تعمیر کا شکار، بوائز ہائی سکول چھاترہ، پرائمری سکول دھڑیاں چھاؤں سمیت کہیں اداروں کی عمارتیں اب تک تعمیر نہیں ہو سکیں اور ہزاروں بچے کھلے آسمان تلے شدید سردی اور شدید گرمی میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ ایرا اور سیرا نامی اداروں کے ذمے جن تعلیمی اداروں کی عمارتوں کی تعمیر تھی، وہ عمارتیں ادھوری پڑی ہیں یا پھر ان پر سرے سا کام کا آغاز ہی نہیں ہوا اور دونوں ادارے غائب ہیں۔ ایسی حالت زار کو دیکھ کر کہیں سماجی و فلاحی تنظیمیں عام آدمی کے لئے کچھ نہ کچھ سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ کبھی کرونا لاک ڈاؤن میں دیہاڑی دار طبقے اور بیواؤں کو راشن اور کہیں دوسری سرگرمیاں جیسا کہ گزشتہ روز الخدمت فاونڈیشن کی طرف سے ایک روزہ فری آئی کیمپ لگا کر کچھ ایسے غریبوں کو مستفید کیا گیا۔ جہاں فری چیک اپ کے ساتھ فری آپریشن کی سہولت بھی میسر کی گئی۔ ایسے غریب طبقے کی مدد کی گئی کہ شائد جن کے پاس عباسپور کا کرایہ مہیا کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کہیں دور کوٹلی، یا راولپنڈی اسپیلسٹ ڈاکٹرز تک جن کی پہنچ دور ہوتی ہے۔
کبھی کچھ پانے کے لئے بھاگ دوڑ کرنی پڑتی تھی اور اب خود اپنے پاس سے کیسے مانگنے سے حیرت ہو رہی ہے۔ نادار آفس کی جگہ جو 1986ء سے بے خالی پڑی ہے جہاں کتے اور بھینسیں بسیرا کررہے ہیں۔ پچھلی حکومتوں کی بھی اس طرف عدم توجہی رہی۔ اب وزیراعظم آزادکشمیر سردارعبدالیقوم خان نیازی ایسے مسائل کو حل کرکے عباسپور کی مرکزیت کو بحال کر سکتے ہیں مگر فی الحال معلوم نہیں کے ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ ان کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ عوام کی اس بے چینی کو دور کرکے لوگوں کے دل جیتیں۔ سیاسی مخالفت کو ہر گز عباسپور کے عوام کے لئے زہر کے طور پہ نہ استعمال کیا جائے۔ جذبات پہ قابو پاتے ہوئے ٹھنڈے دماغ کا استعمال کیا جائے۔ اور عباسپور کے باسیوں کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی جائے۔
اسسٹنٹ کمشنر عباسپور سردار عمر فاروق کی تعیناتی عباسپور کے عوام کے لئے خوش آئند ہے۔ جنہوں نےعباسپور کے عوام اور انجمن تاجران کو گہری نیند سے جگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ عباسپور کی فضاء کو بہار کی طرح رونق بخشی۔ انجمن تاجران، سول سوسائٹی، سرکاری اداروں کے آفیسرز، تعلیم، برقیات، شاہرات سمیت ہر مکتبہ فکر کو نئے انداز سے ایکٹو کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی بدولت کوئی سرکاری دن ہو یا قومی دن یا مذہبی دن یا غلامی کا دن ہو جو کہ گذشتہ عرصے سے سادگی سے گزر جاتے تھے اور آج کے ترقی یافتہ دور میں اکثر نوجوان بچے تاریخ کو بھول کر تاریخ سے دور ہوگئے تھے۔ ایسے قومی سرکاری دنوں کو اسی انداز میں منانے خوشیوں میں خوشیاں بانٹنااور غمی میں نڈھال ہونا نئے عزم کے ساتھ پروان چڑھانے لگے۔ عباسپور کی سادہ فضاء کو بہار کی طرح نکھارنے میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئےاپنا بہترین کردار ادا کررہے ہیں۔خدا کرے ایسے آفیسرز عباسپور کی رونق بنے رہیں تاکہ ہر غریب کا کام اس کی سوچ سے بڑھ کر ہو سکے۔
انجمن شاہین چودھری ہجیرہ میں ڈیلی کشمیر لنک ڈاٹ کام کی نامہ نگار ہیں۔