آزادکشمیر میں نئی حکومت قائم ہوئے ابھی چند ماہ ہوئے ہیں۔ بیورو کریسی کی کھلی کچہریاں لگنا جاری ہے۔ ایسے حکومت سے اس کی کارکردگی پوچھنا بنتا نہیں لیکن حکومت کی اٹھان کیسی ہے اس پر بات ہو سکتی ہے اگر حکومت کی شروعات کی بات کی جائے تو اللہ اللہ کرکے کابینہ کا پہلا اجلاس بھرپور طریقے سے ہوا ہے جس میں سینئر ترین وزیر سمیت اکثر وزراء شریک ہوئے اس سے پہلے ہونے والے کابینہ کے اجلاس سینئر وزیر سردار تنویر الیاس سمیت ان کے ہم خیال وزراء کا شریک نا ہونے کی وجہ سے یہ کابینہ کے اجلاس اپنے مقاصد پورے نا کر سکے تھے۔ اب وزیر اعظم جب اپنے وزیروں کو گھرگھرجاکر منانے میں کامیاب ہو چکے اس کے بعد ان وزرا کو عوام کے مسائل سننے اور ان کو حل کرنے کیلئے سامنے آنا چاہئے لیکن اس وقت اس کے برعکس کچھ اور ہی ہورہا ہے۔
ان دنوں ہر طرف کھلی کچہریوں کا شور و غوغا ہے لیکن یہ کھلی کچہریاں کوئی عوامی نمائندے یا حکومتی شخصیات نہیں لگا رہی بلکہ بیوروکریسی لگا رہی ہے مختلف محکموں کے سیکرٹری اور بیورو کریٹس ان کچہریوں میں عوام کی شکایات سن رہے ہیں جن کی اکثر شکایات اس بیورو کریسی کے خلاف ہی ہوتی ہیں۔ کنٹرول لائن کے عوام کے مسائل کے حل کیلئے ہفتہ بھی منایا جارہا ہے لیکن اس ہفتہ کو منانے کا کام بھی بیورو کریسی کو ہی سونپا گیا ہے اب عوام کس کو اپنی شکائت سنائیں جو ان کے اکثر مسائل کے زمہ دار ہیں۔
چلیں بات کر لیتے ہیں بیورو کریسی کی اہلیت کی آزادکشمیر کا سالانہ بجٹ 2021 اور 22 کا کل 141 ارب سے زائد ہے جس میں 28 ارب روپے ترقیاتی کاموں کیلئے رکھے گئے ہیں یعنی کہ دنیا کی انوکھی ریاست ہے جہاں 28 ارب روپے کا کام کرانے کیلئے 113 ارب سے زائد کی تنخواہیں مراعات دی جاتی ہیں لیکن پھر بھی ترقیاتی بجٹ خرچ نہیں ہو پاتا معمولی معمولی ترقیاتی منصوبوں کا فائیل ورک مہینوں نہیں بلکہ سالوں لگ جاتے ہیں۔
البتہ اپنے زاتی کام کیلئے یہ بیوروکریسی بہت ہی زیادہ متحرک ہے اس کا ثبوت حالیہ پنڈورا پیپرز میں بھی سامنے آیا ہے اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں سرکاری نیم سرکاری زمینوں پر قبضے ریسٹ ہاؤس گیسٹ ہاؤس کی تعمیر، بحریہ ٹاؤن میں کوٹھیاں دوہری شہریت بیرون ممالک آف شوئر کمپنیاں اور بیرون ملک اولادوں کی تعلیم بینک بیلنس اور کمیشن ہتھیانے عزیز و اقارب کو نوازنے کا کام بہتر انداز میں ہوتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بیورو کریسی ہی کرپٹ ہے سیاستدان حکمران نہیں؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ حکمرانوں، سیاستدانوں، ٹھیکیداروں سمیت ہرشعبہ کی کرپشن کو اس بیوروکریسی کی مدد حاصل ہوتی ہے اگر یہ مدد حاصل نا ہو تو یہ کرپشن ختم نہ بھی ہو لیکن سکڑ کر معمول حد تک آ سکتی ہے۔ بیورو کریسی میں چند دانے اچھے بھی ہیں اپنے کام ایمانداری اور دیانتداری سے کرتے ہیں لیکن وہ بھی اس گندے سسٹم میں بے بس اور بے کس ہیں۔
جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں انتخابی شیڈول جاری ہوتے ہیں ریاستی معاملات/ اختیارات عملی طور پر بیورو کریسی کے ہاتھ آجاتے ہیں انتخاب ہونے کے بعد اور نئی حکومت کی تشکیل کے بعد تک وزرا کو اپنےمحکموں کی الف ب پتہ لگانے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں تب وقت تک بیورو کریسی اپنا کھیل جاری رکھتی ہے۔ کیوں کہ بیورو کریٹ مستقل بنیادوں پرمحکموں اور اداروں کا حصہ ہوتے ہیں اس لئے ان کو سب کونے کھدرے پتہ ہوتے ہیں کہ کہاں کون سا خزانہ ہے اور کہاں کھوٹے سکے ہیں کہاں سے کیسے اپنا حصہ لیا جا سکتا ہے اور کہاں سے کس من پسند کو کیسے نوازا جا سکتا ہے کون سا راستہ سیدھا ہے اور کہاں الٹی راہ سے نقب لگا کر خزانے تک پہنچا جا سکتا ہے۔
ایسے میں عوامی نمائندوں جن میں حکومت سے تعلق رکھنے والے ہوں یا اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے حالیہ کھلی کچہریوں سے مکمل دور ہیں عوامی نمائندوں کو ان کھلی کچہریوں سے رکھنا سمجھ سے بالا تر ہے اب ان کھلی کچہریوں میں عوام کس سے شکائت کس کی شکائت کریں گے۔ ایسے میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ اس وقت بھی آزادکشمیر میں عملی طور پر چیف سیکرٹری کی حکومت ہے چیف سیکرٹری بیورو کریسی کے زریعہ حکومتی مشینری کو کنٹرول کررہے ہیں۔
آزادکشمیر میں قائم ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت میں چند ایک تجربہ کار وزیر بھی ہیں لیکن اکثریت وزرا نا تجربہ کار اور کئی پہلی مرتبہ اسمبلی رکن بنے ہیں ایسے میں بیورو کریسی عوامی نمائندوں پر حاوی نظر آ رہی ہے۔ اگر ان کھلی کچہریوں کا مقصد جانہ پوری کرنا ہے تو پھر ٹھیک ہے جیسے چل رہا ہے چلنے دیا جائے اگر ان کھلی کچہریوں کو مقصد عوام کی شکایات کو سننا ان کے مسائل کو حل کرنا ہے تو پھر عوامی نمائندوں کو جج کی کرسی اور بیورو کریسی کو کٹہرے میں لانا ہوگا۔
امیرالدین مغل مظفرآباد میں مقیم سنیئر صحافی ہیں۔ وہ ذرائع ابلاغ کے کئی قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ منسلک رہ چکے ہیں۔