ریاست جموں کشمیر کی تحریک آزادی 1947 سے چل رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مقصد کیلئے 24 اکتوبر 1947 کو ایک انقلابی حکومت بھی قائم کی گئی تھی، جس کا نام حکومت آزاد جموں آزادکشمیر رکھا گیا۔ اس ریاست کو تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ بھی قرار دیا گیا۔ لیکن رفتہ رفتہ انقلابی حکومت مفاداتی حکومت بنتی چلی گئی اور بیس کیمپ کو اقتدار کے حصول کیلئے ریس کیمپ میں تبدیل کر دیا گیا۔ آج 74سال بعد صورتحال یہ ہے کہ زاتی، سیاسی، ہر قسم کے مفادات کو تحریک آزادی کا نام دے دیا گیا۔ نام نہاد بیس کیمپ کی حکومتیں، سیاستدان، بیورو کریٹ اور مقتدر اپنے اپنے مفادات کو تحریک آزادی کے نام پر حاصل کر رہے ہیں۔
حکومت نے بہت سے ادارے کشمیر کے نام پر بنا رکھے ہیں اور ہر آنے والی حکومت اپنے چمچوں کو ان اداروں کے زریعہ نوازتی ہے۔ بیرونی ممالک میں سیر سپاٹے کیلئے وفود بھیجے جاتے ہیں۔ ان وفود میں صرف سفارشی اور منظور نظر افراد کو شامل کیا جاتا ہے۔ رقوم خرچ کرکے منظور نظر افراد کو صرف اور صرف نوازا جاتا ہے۔ وفود میں شامل لوگ بیرون ممالک تفریح و طبع کا شوق پورا کرتے ہیں، تعلقات بناتے ہیں ، خریداری کرتے اور تحائف وصولتے ہیں۔ کئی لوگ سیاسی پناہ کے چکر میں لگ کر سرکاری وفود کا حصہ بنتے ہیں جو بالاخر امریکہ، کینیڈا یا برطانیہ میں بسیرا کر لیتے ہیں اور پھر وہی ‘تحریک آزادی’ چلانے لگتے ہیں۔
جموں کشمیر کی تحریک کے حوالے سے جو کام ہورہا ہے وہ سکریپٹڈ اور پلانٹڈ ہے۔ طریقہ کار اتنا فرسودہ کہ اس کے زریعہ مقامی سطح پر کسی کو قائل نہ ہو سکے تو ایسے میں ریڈی میڈ سکرپٹس کے زریعہ عالمی برادری کو کیسے قائل کیا جا سکتا ہے؟ اسمبلیوں میں بیٹھے لوگوں کو جموں کشمیر کے مسئلے کی ابجد معلوم نہیں۔ ایسے میں مسئلہ کشمیر کے نام پر سیر سپاٹے کرنے والے خاک مسئلہ جموں کشمیر پر لابنگ کریں گے؟ تحریک آزادی جموں کشمیر کیلئے سب سے اہم کردار زرائع ابلاغ کا ہو سکتا تھا۔ لیکن اس شعبے کو سرے سے ہی نظر انداز کر کے رکھا گیا۔ صرف اپنے چند منظور نظر طوطے رکھے گئے ہیں جن کے زریعہ خانہ پری ہورہی ہے۔
گزشتہ دنوں او آئی سی کے ایک چھ رکنی وفد نے آزادکشمیر کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران اس وفد سے زرائع ابلاغ کو مکمل طو پر دور رکھا گیا۔ اس وفد کی صدر وزیر اعظم سمیت چند لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں، جن کی فوٹو اور روایتی لفاظی پر مشتمل پریس ریلیز کے ساتھ اخبارات کو جاری کردی گئی۔ وفد کو چند مخصوص مقامات پر روائتی دورے کرائے گئے۔ مخصوص سکرپٹ پڑھ کر سنائے گئے، اور کنٹرول لائن پر بھی وہی روایت دھرائی گئی جو مدتوں سے چلی آ رہی ہے۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر سے آئے مہاجرین کے ایک ماڈل کیمپ، جس میں گھروں کی تعمیر کویت کی مالی مدد سے ہوئی، وفد کو وہاں لیجا کر یہ بتایا جاتا ہے کہ ہم نے بڑے تیر مار کر مہاجرین کو ماڈل کالونیاں بناکر دیں ہیں۔ دیگر سہولتیں بھی مہیا کرنے کے بھی دعوئے ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ لگتا ہے حکام انکھیں بند کرکے شتر مرغ کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ سب اچھا ہے۔ یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ اب یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی، پی ٹی آئی کے ایک مہاجر رکن قانون ساز اسمبلی نے جلسہ میں خطاب کے دوران کہہ دہاہے کہ کشمیری مہاجرین مسائل کا شکار ہیں۔ اگر حکومتیں ان کے مسائل حل نہیں کر سکتی تو ان کو واپس مقبوضہ کشمیر ہی بھیج دیا جائے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وفد کی سرگرمیوں کی آزاد میڈیا کو کوریج کی اجازت دی جاتی سرکاری پریس ریلیز کی کیا اہمیت کہ اس میں سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے۔ زرائع ابلاغ کے ان لوگوں سے بھی ملایاجاتا جو سالہا سال سے کنٹرول لائن پر ہونے والی گولی باری فائرنگ کی کوریج کررہے ہیں۔ جنہوں نے بھارتی گولہ باری اس سے ہونے والی تباہی انسانی جانوں کے ضیاع کو کور کیا اور اس پر مضامین لکھے۔ ڈاکیو منٹریز بنائیں، فوٹو گرافی کی شکل میں یہ سب محفوظ کیا جو زرائع ابلاغ کے عالمی اداروں کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس مواد کی اپنی صداقت اور اہمیت ہے۔
مقتدر اداروں میں بیٹھے افراد کا یہ حال ہے کہ 74 سالوں سے سوائے ایک دوسرے کو شک بھری نگاہوں سے دیکھنے کے کچھ نہیں کر سکے۔ اپنے علاوہ کسی دوسرے کو قابل اعتبار کبھی نہیں سمجھتے۔ شک کے اس ماحول میں ہر کوئی ایک دوسرے کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ کشمیر کی تحریک یا کنٹرول لائن کے حوالے کیے گئے کئی اچھے کاموں پر محض اس لیے مٹی ڈالی جاتی ہے کہ اس کے ساتھ جڑا نام مہان لوگوں کا منظور نظر نہیں۔
ایسے میں تحریک آزادکشمیر کے نام پر 74سال سے جو کچھ چل رہا ہے، ویسا ہی چلتا رہا تو اگلے کئی 74 سال گزر جائیں گے لیکن حاصل کچھ نہیں ہو گا۔ کیوں کہ ہر آنے والے دن کے الگ ہی تقاضے ہیں۔ ان تقاضوں کو پورا کرکے اس تحریک کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جاتا تو پھر یوں چوری چھپے چلنے والی تحریک آزادی تاریک آزادی ہی بن کر رہ جائے گی۔
امیرالدین مغل مظفرآباد میں مقیم سنیئر صحافی ہیں۔ وہ ذرائع ابلاغ کے کئی قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ منسلک رہ چکے ہیں۔