آج اخبار پڑھتے پڑھتے بے اختیار ہنس پڑا۔ پاس بیٹھے صحافی دوست نے پوچھا کیا ہوا؟ جواب دیا کچھ نہیں، بس پی ٹی آئی کےشگوفے نما بیان پڑھ کر ہنسی آرہی ہے۔
صدر آزادکشمیر سلطان محمود چوہدری نے دو روزہ وادی نیلم کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے وادی نیلم کیلئے پیکج(جوان کا اختیار نہیں) اعلان کیا۔ صدر صاحب نے وادی نیلم کیلئے ہیلی کاپٹر سروس چلانے کا اعلان تو کردیا۔ لیکن صدر صاحب کو شائد یہ معلوم نہیں کہ آزادکشمیر حکومت کے پاس ایک بھی ہیلی کاپٹر نہیں۔ اور اس آزاد حکومت کو ایک ہیلی کاپٹر تک خریدنے کا این او سی نہیں مل رہا۔ اس حکومت کو کرائے پر ہیلی کاپٹر حاصل کرنے کیلئے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ایسے میں بیرسٹر سلطان محمود کون سی ہیلی کاپٹر سروس چلائیں گے؟
اس بیان سے مجھے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ یاد آگیا۔
کسی اخبار میں ایک خبر لگی تھی کہ: ‘پیر ودہائی میں دو جہاز گر گئے۔’ سرخی پڑھ کر میں سوچنے لگا کہ اتنا بڑا حادثہ اور خبراتنی چھوٹی کیوں؟ خبر کی تفصیل پڑھی تو معلوم ہوا کہ پیر ودہائی بس اڈہ میں دو پوڈری(ہیرؤنچی) پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔ تب پتہ چلا کہ پوڈریوں کو جہاز بھی کہا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے صدر آزادکشمیر کی ہیلی کاپٹر سروس بھی کچھ ایسی ہی ہو۔
صدر صاحب کا دوسرا مضحکہ خیز اعلان وادی نیلم کے گاؤں دواریاں کو ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دینے کا ہے۔ بہتر ہوتا اگر اس اعلان سے پہلے صدر صاحب ایک نوٹیفکیشن جاری کرواتے کہ آئندہ گاوں کے بجائے ٹاون کمیٹی کا لفظ استعمال ہو گا۔ واضح رہے کہ ٹاون یا میونسپل کمیٹی قائم کرنا بھی صدر کا اختیارنہیں۔ صدر نے وادی نیلم کے عوام کو ایندھن پر سبسڈی دینے اور نیشنل پارک کے قیام سمیت دیگر کئی اعلان بھی کئے۔ یہ اعلانات پی ٹی آئی کے ورکر کنونشن سے خطاب میں کئے گئے۔ آئینی اور اخلاقی طور پر ایسے ورکرز کنونشن سے خطاب بھی صدر ریاست کے منصب کے خلاف ہے۔ کیوں کہ اب وہ ریاست کے صدر ہیں نا کہ کسی جماعت کے۔
آج کا کالم https://t.co/ZPbJ3Cm9n5 pic.twitter.com/ObERs1rNNw
— Amiruddin Mughal (@MughalAmiruddin) November 24, 2021
اب ہم یہ بھی بتاتے ہیں کہ صدر کے کرنے کے کام کیا ہیں۔
ان کے اختیار میں یونیورسٹیوں کے معاملات بھی شامل ہیں۔ صدر یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں۔ آزاد جموں وکشمیر یونیورسٹی کے کنگ عبداللہ کیمپس کے طلبہ فیسوں میں غیر معمولی اضافے کے خلاف کئی روز سے ہڑتال پر ہیں۔ لیکن صدر صاحب نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ البتہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی جانب سے خطیر رقم خرچ کرکے ان کے اعزاز میں دی گئی ضیافت میں شریک ہوئے۔ وائس چانسلر، یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ کے منہ سے تعریف و توصیف سن کر خوش ہوئے۔
پوچھنے والےتو یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ غریب طلبہ سے فیس بڑھا کر وصولے35لاکھ روپے کس کھاتے میں صدر کی ایک ضیافت پر کیوں اڑائے گئے؟ اس سے قبل سکبدوش ہونے والے صدرکیلئے الوداعی تقریب پر 20 لاکھ کے لگ بھگ خرچ ہوئے۔ یونیورسٹی کے فنڈزاللے تللوں کے بجائے طلبہ کی تعلیم و تدریس کی ضرورتوں پر خرچ ہونی چاہیں۔ اگر وائس چانسلر نے کسی کا منظور نظر بننے کیلئے ضیافتوں کا اہتمام کرنا ہے تو پلے سے کرے۔ حلوائی کی دوکان پر دادا جی کی فاتحہ چہ معنی دارد؟
اسی دوران ایک اور لطیفہ بھی اخبار میں پڑھنے کو ملا! خبر ہے کہ وزیر اعظم آزادکشمیر سردار عبدالقیوم خان نیازی اور چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں آزادکشمیر میں ہائیڈرو پاور کے ترقی کیلئے تعاون پر اتفاق ہوا ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ چیئرمین سینٹ کوئی وزیر توانائی ہے کہ وہ آزادکشمیر میں پن بجلی کے شعبے میں کام کرے گا؟ مجھے تو سرکاری میڈیا پر بھی سخت حیرانی ہوتی ہے۔ وہ پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے یہ بھی نہیں دیکھتا کہ جو لکھا ہے وہ متعلقہ شخصیت کے اختیار میں ہے بھی کہ نہیں۔
اسی حوالے سے ایک اور واقعہ آیا!
آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف آزادکشمیر کے دورے پر آئے اور قانون ساز اسمبلی سے خطاب کیا۔ محکمہ اطلاعات نے میڈیا کو جو پریس ریلیز جاری کی اس میں اضافی طور پر لکھ دیا کہ اگر مسئلہ کشمیر حل نا ہوا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ بھی ہو سکتی ہے۔ جب یہ خبر قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہوئی تو رولا پڑ گیا۔ بھارتی میڈیا پر بھی یہ خبرگرما گرم تبصروں کے ساتھ چلنے لگی۔
اس پر وزیر اعظم پاکستان کے دفتر سے سخت نوٹس لیا گیا۔ جس پر اس وقت کے وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید کو محکمہ اطلاعات کے تین افسرمعطل کرنا پڑے۔ اس لئے وزیر اعظم صدر اور ان کے میڈیا ٹیموں کو مشورہ ہے کہ سوچ سمجھ کر پریس ریلیز لکھا اور جاری کیا کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اخبار میں لیڈ اور سپر لیڈ لگوانے کے چکر میں ایسے لطیفے لکھ دیں کہ اس کا انجام کسی معطلی کی صورت میں نکلے۔
کسی نے پوچھا شیر انڈے دیتا ہے کہ بچے؟ جواب ملا شیر جنگل کا بادشاہ ہے ، اس کی مرضی انڈے دے یا بچے!
امیرالدین مغل مظفرآباد میں مقیم سنیئر صحافی ہیں۔ وہ ذرائع ابلاغ کے کئی قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ منسلک رہ چکے ہیں۔