اومیکرون

کورونا کی نئی قسم’ اومیکرون ‘ کے پھیلاو سے دنیا میں خوف

کوروناکی نئی قسم ‘اومیکرون’ نے پوری دنیاکوایک بارپھرخوف کی کیفیت میں مبتلاکردیاہے۔ دنیاجہاں گلوبل ویلیج میں بدل چکی ہے تووہیں اس طرح کی اچھوتی وبائوں کی صورت میں پوری دنیاکامتاثرہوناکوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔
حالیہ کوروناوباجب چائنہ کے شہرووہان سے شروع ہوئی توتمام ترحفاظتی اقدامات کے باوجودپوری دنیامیں پھیل گئی۔ یہ سب اس وجہ سے ہواکہ دنیااب ایک ویلیج میں سماگئی ہے ۔ جہاں ایک شخص متاثرہوتاہے توپوری دنیاپراس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کوروناوباکی نئی قسم اومیکرون نے جنوبی ایشیا کومتاثرکیاہے اوریہ سلسلہ اب پھیلتاچلاجارہاہے اوراب تک کی معلومات کے مطابق دنیاکے ساتھ ممالک متاثرہوچکے ہیں۔ ان ممالک میں سیکڑوں پاکستانی بھی پھنسے ہوئے ہیں جن کووہاں سے نکالنے کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں۔ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی طے شدہ سٹینڈنگ آپریٹنگ پروسیجرز ایس او پیزکے تحت 5دسمبر تک اومیکرون کورونا سے متاثرہ ممالک میں پھنسے ہوئے تمام پاکستانیوں کو وطن واپسی کی سہولت فراہم کرے گی۔

پاکستان میں احتیاطی تدابیر

پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے نئے ہدایت نامہ کے مطابق کیٹگری سی ممالک کی فہرست پر نظر ثانی کرتے ہوئے 7ممالک کو فہرست میں شامل کیا گیا ہے اور پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی واپسی کیلئے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق 5 سدسمبر تک سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ پھنسے ہوئے پاکستانیوں کوسفر کی اجازت بغیر استثنی دی جائے گی لیکن تجویز کردہ صحت اورمعائنہ کے پروٹوکول پر عمل کرنا ضروری ہو گا۔ ان ممالک جن میں ہانگ کانگ کے علاوہ جنوبی افریقہ کے 6ممالک موذمبیق، نمیبیا، لیسوتھو، ایسواطینی بوٹسوانہ شامل ہیں سے سفری پابندی کا نوٹیفکیشن پہلے ہی جاری کیا جا چکا ہے۔ کوروناروپ بدل بدل کر دنیا پر حملہ آور ہورہا ہے۔

تین سال سے اس نے پورے کرہ ارض کو تلپٹ کررکھا ہے ۔ دنیا کے اربوں انسانوں کو ویکسین دیے جانے کے باوجود اس عفریت کا خاتمہ نہیں ہوسکا اور لاکھوں انسانی جانوں کے بھینٹ چڑھ جانے کے بعد بھی اس کی خون آشامیاں جاری ہیں۔ کورونا کی ایک قسم پر قابو پالیا جاتا ہے اور دنیا میں زندگی کے معمولات بحال ہونے لگتے ہیں تو نئی قسم ازسرنو اعلان جنگ کے ساتھ سامنے آجاتی ہے۔ پاکستان میں حال ہی میں زندگی کی سرگرمیاں پوری طرح بحال ہوئی تھیں ۔ معیشت کا پہیہ پھر سے رواں ہورہا تھا ۔ کارخانوں دفاتر اور تعلیمی اداروں میں زندگی کی گہماگہمی نظر آنا شروع ہوئی تھی کہ خطرے کی گھنٹی دوبارہ بج گئی ہے۔

این سی او سی کے اقدامات

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے ہفتے کو جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق جنوبی افریقہ میں سامنے آنے والی کورونا کی نئی قسم اومیکرون کی ملک میں آمد کے خطرے کے باعث جنوبی افریقہ سمیت سات ملکوںپر سفری پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ دیگر چھ ملکوں میں افریقی ممالک لیسوتھو، اسویٹنی، موزمبیق، بوٹسوانا اور نمیبیا کے علاوہ ایک ایشیائی ملک ہانگ کانگ بھی شامل ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اومیکرون تیزی سے منتقل ہونیوالا وائرس اور پہلے سے موجود ڈیلٹا وائرس ہی کی ایک قسم ہے۔ یورپ اور امریکا میں بھی اس سے متاثر ہونے کے واقعات سامنے آرہے ہیں اور یہ انسانی ہلاکتوں کی وجہ بن رہا ہے۔ ابتدائی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیگر منتقل ہونے والے وائرسوں کے مقابلے میں دوبارہ انفیکشن کا خطرہ زیادہ بڑھا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وہ افراد جو کورونا وائرس سے متاثر ہو کر صحت یاب ہوچکے ہیں یہ وائرس ان پر بھی حملہ آور ہوسکتا ہے۔

ماہرین کیا کہتے ہیں

ماہرین نے اومیکرون کے مطالعے کے بعد اس کے ردعمل کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ ایک سخت جان اور زیادہ متعدی وائرس ہے۔ امریکا میں پابندیاں ختم ہونے اور زندگی معمول پر آنے کا جشن منائے جانے کے بعد صورت حال نئے سرے سے مخدوش ہوگئی ہے اور صدر جوبائیڈن نے نئی سفری پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے لہذا ہم نے محتاط رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یورپی یونین، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، سنگاپور اورجاپان نے بھی متاثرہ جنوبی افریقی ملکوں سے آمد ورفت پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ پاکستان میں این سی او سی نے بجا طور پر ملک میں بارہ سال سے زیادہ عمر کی تمام آبادی کی جلداز جلد ویکسی نیشن پر زور دیا ہے اور سب کو اس معاملے میں پوری ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے این سی او سی کی ہدایات پر کاملا عمل کرنا چاہیے۔

مجوزہ اقدامات

تاہم پوری انسانی برادری کو اب یہ طے کرلینا چاہئے کہ اس وائرس کا مقابلہ کاروبار زندگی کو معطل کرکے نہیں بلکہ احتیاطی تدابیر سے کیا جائیگا ۔ معیشت کا پہیہ بہرصورت رواں رکھا جائے گا ۔ تعلیمی اداروں اور کاروباری مراکز کو دوبارہ ویران نہیں کیا جائے گاجو کام کسی نقصان کے بغیر آن لائن ہوسکتے ہیں وہ یقینا اسی طرح انجام دیے جانے چاہئیں لیکن جہاں انسانی نقل و حرکت اور میل جول ناگزیر ہے وہاں حتی الامکان تعطل کی کیفیت پیدا نہیں ہونے دی جانی چاہئے۔

ویکسین کے ساتھ ساتھ اس وائرس کے علاج کیلئے موثر ادویات کی جلد تیاری کی مہم بھی تیز تر کی جانی چاہئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسکے مقابلے کیلئے مناسب غذائوں، بہتر ماحول اورضروری وٹامنز و معدنیات کے ذریعے سے انسانی قوت مدافعت کو بڑھانے کی تدابیر سے لوگوں کو مکمل آگہی فراہم کی جانی چاہیے کیونکہ فطرت کا یہ نظام تمام بیماریوں سے حفاظت کا ضامن اور انسانی صحت کا ہمہ وقتی محافظ ہے۔اسلئے ضرورت اس امرکی ہے کہ حفاظتی اقدامات کیلئے ہرشخص خودکوتیاررکھے اورکسی بھی آفت کی صورت میں احتیاطی تدابیرکیلئے تیاررہے ۔ یقینااحتیاطی تدابیرشہریوں کی زندگیوں کی حفاظت کیلئے ضروری ہوتی ہیںجن پرعمل کرکے ہرشخص خودکواوراپنے پیاروں کوآفات سے بچاسکتاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں