آکسفورڈ کی آسٹرازینیکا ویکسین بنانے والی ٹیم کی ممبر کا کہنا ہے کہ مستقبل کی وبائی بیماریاں موجودہ کوویڈ بحران سے زیادہ مہلک ثابت ہو سکتی ہیں۔
پروفیسر ڈیم سارہ گلبرٹ نے کہا کہ وبائی امراض کی تیاری کے لیے مزید فنڈنگ کی ضرورت ہے تاکہ کی گئی پیش رفت کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ یہ آخری بار نہیں ہے کہ کسی وائرس نے ہماری زندگیوں اور ہماری روزی روٹی کو خطرے میں ڈالا ہے۔
انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سچ تو یہ ہے کہ اگلی وبا اس سے بھی بدتر ہو سکتی ہے ۔ زیادہ متعدی یاhttps://www.humnews.pk/latest/364907/ زیادہ مہلک، یا دونوں ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ موجودہ ویکسین کورونا کی نئی قسم اومیکرون کے خلاف کم موثر ثابت ہوسکتی ہیں۔
ڈیم سارہ نے مزید کہا کہ لوگوں کو اس وقت تک محتاط رہنا چاہیے جب تک اس قسم کے بارے میں مزید معلوم نہ ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ اومیکرون کے سپائیک پروٹین میں ایسے تغیرات ہیں جو وائرس کی منتقلی کو بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم ویکیسن کے بعدبھی انفیکشن ہونے کامطلب یہ نہیں ہوگا کہ شدید بیماری اور موت کے خلاف تحفظ میں کمی واقع ہو گی۔
انہوں نے وبائی امراض کے خلاف ویکسین اور ادویات کی فراہمی میں تیزی سے پیشرفت کو معمول بنانے پر زور دیاہے۔
پروفیسر ڈیم سارہ گلبرٹ نے کہا کہ وبائی امراض کی تیاری کے لیے مزید فنڈنگ کی ضرورت ہے تاکہ کی گئی پیش رفت کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ یہ آخری بار نہیں ہے کہ کسی وائرس نے ہماری زندگیوں اور ہماری روزی روٹی کو خطرے میں ڈالا ہے۔
انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سچ تو یہ ہے کہ اگلی وبا اس سے بھی بدتر ہو سکتی ہے ۔ زیادہ متعدی یا زیادہ مہلک، یا دونوں ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ موجودہ ویکسین کورونا کی نئی قسم اومیکرون کے خلاف کم موثر ثابت ہوسکتی ہیں۔
ڈیم سارہ نے مزید کہا کہ لوگوں کو اس وقت تک محتاط رہنا چاہیے جب تک اس قسم کے بارے میں مزید معلوم نہ ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ اومیکرون کے سپائیک پروٹین میں ایسے تغیرات ہیں جو وائرس کی منتقلی کو بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم ویکیسن کے بعدبھی انفیکشن ہونے کامطلب یہ نہیں ہوگا کہ شدید بیماری اور موت کے خلاف تحفظ میں کمی واقع ہو گی۔