او آئی سی وزرائے خارجہ

او آئی سی اجلاس میں کیا ہونے جا رہا ہے

اسلام آباد میں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی وزرائے خارجہ کا ایک غیرمعمولی اجلاس ہونے جا رہا ہے۔  اسلام آباد کے شہریوں کو اختتام ہفتہ کے بعد ایک اضافی چھٹی دے دی گئی ہے۔ اس ہفتے شہری دو کے بجائے تین دن چھٹیوں کا لطف لیں گے۔ البتہ اس دوران شہر کے بعض علاقوں میں موبائل فون سروس معطل رہنے سے متعلق متضاد اطلاعات ہیں۔

او آئی سی کی وزراء خارجہ کونسل کا یہ غیر معمولی اجلاس 19 دسمبر سے اسلام آباد میں شروع ہو رہا ہے۔ یہ اجلاس بلانے کا مقصد افغانستان میں طالبان  کے بعد پیدا غیر معمولی صورتحال کا جائزہ لینا ہے۔

عالمی اداروں کا خیال ہے کہ افغانستان کی 38 ملین میں سے نصف یعنی کم و پیش 19 ملین آبادی کو بھوک کے سنگین بحران کا سامنا ہے۔ ان میں تقریباً 32 لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ جبکہ افغانستان کے اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے 20 لاکھ افراد اس کے علاوہ ہیں۔

پاکستان پر اثرات اور حکومت پاکستان کی کوششیں

پاکستان افغانستان کی موجودہ صورت حال سے نہ صرف جڑا ہے بلکہ براہ راست متاثر بھی ہوتا ہے۔ اسی  لیے پاکستان افغانستان کی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا چلا آ رہا ہے۔ بلکہ اس کے حل کے لیے اپنی سی کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

کچھ عرصہ قبل سعودی عرب نے افغانستان کی صورت حال پر او آئی سی سربراہی اجلاس طلب کیا۔ اسی دوران پاکستان نے وزرائے خارجہ سطح کے اجلاس کی میزبانی کی پیش کش کی۔ پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے لگ بھگ  40لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔

افغانستان کے تنازعےکے اثرات براہ راست پاکستان پر پڑتے ہیں۔ جبکہ افغانستان میں امن عمل کے حوالے سے عالمی برادری کی کئی توقعات بھی پاکستان سے وابستہ ہیں۔ او آئی سی نے بھی ہمیشہ افغانستان کی حمایت کی ہے۔  افغانستان کے لوگ آج جن مسائل کا شکار ہیں ان سے چھٹکارا پانے کے لیے انہیں عالمی برادری اور خاص طور پر امت مسمہ کی مدد و حمایت کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان افغانستان کے معاملے میں عالمی برداری کے رہنماؤں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی افغانستان کے قریبی ممالک ایران، تاجکستان، کرغستان اور ترکمانستان کا دورہ کر چکے ہے۔ انھی کوششوں کے نتیجے میں پڑوسی ممالک کا ایک باقاعدہ پلیٹ فارم بھی تشکیل پا چکا ہے۔

مستقبل کا لائحہ عمل

اسلام آباد میں  ہونے والا اجلاس افغان عوام کو بحران سے نکالنے میں مدد گارثابت ہو گا۔ یہ اجلاس بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کو افغانستان میں امدادی کاروائیاں آگے بڑھانے میں بھی راہنمائی فراہم کرے گا۔

افغان عوام کے مسائل کے لیے پاکستان کی تشویش دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ جتنی فکر پاکستان کو افغان عوام  کی ہے اتنی فکر افغان حکمرانوں کو بھی نہیں ہے۔ افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کا مشکل وقت میں افغان عوام کو تنہا چھوڑ کر بیرونِ ملک فرار ہونا اس کا واضح ثبوت ہے۔  اشرف غنی  سے قبل  اقتدار میں رہنے والے حکمران بھی افغان عوام کے مسائل میں کم ہی دلچسپی رکھتے تھے۔

افغانستان اس وقت سنگین بحران سے دوچار ہے۔ اس ملک کو یہاں تک پہنچانے میں افغانستان کے سابق حکمرانوں کے ساتھ ساتھ امریکہ اور ۔عالمی طاقتوں کا بھی کردار ہے۔ پاکستان اور او آئی سی افغانستان کو اس بحران سے نکالنے کے لیے اپنے اپنے طور پر کوششیں کر رہے ہیں۔ تاہم جب تک روس امریکہ اور چین جیسی عالمی طاقتیں اس عمل میں شراکت دار نہیں بنتی، اس میں خاطر خواہ کامیابی ممکن نہیں۔

ان حالات میں روس اور امریکہ کو چاہیے کہ وہ سیاسی اور اخلاقی اور معاشی اعتبار سے افغانستان کی مدد کریں۔ تاکہ  دونوں ممالک کی طرف سے افغانستان کو دیئے گئے زخم جلدی بھر سکیں اور افغانستان کے عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں