آج مادری زبانوں کا عالمی دن ہے۔ مگر جس زبان میں آپ سے مخاطب ہوں، یہ میری مادری زبان نہیں ہے۔ ہمیں روز مرہ ضروریات کے لیے ایک سے زائد زبانوں میں تحریر و تقریر کرنا پڑتی ہے۔ اور نہیں بھی تو ہمیں کم از کم قومی زبان اردو، بین الاقوامی زبان انگریزی اور مذہبی زبان عربی سے بحرحال واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے ہم رفتہ رفتہ اپنی مادری زبانوں سے دور ہوتے جا رہے یان یا پھرمادری زبانوں میں بات کرتے ہوئے شرماتے ہیں، ہچکچاتے ہیں یا شاید اپنے آپ کو کم تر محسوس کرتے ہیں۔ یہی ہمارا المیہ ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان جیسے لسانی اور ثقافتی لحاظ متنوع ملک سے بہت ساری مادری زبان آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔
میں جس گھر میں پلا بڑھا، وہاں صرف ہندکو زبان ہی بولی جاتی تھی۔ میرے خاندان کی آدھے سے زیادہ خواتین ابھی بھی ہندکو کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں جانتی۔ ان میں سے ایک میری جنت مکین اماں جی بھی تھیں۔ میں خاندان کے ان چند افراد میں سے ہوں جو ایک سے زیادہ زبانیں پڑھا لکھنا اور بولنا جانتے ہیں۔ مجھے اردو اور انگریزی لکھتے اور بولتے کئی سال ہو گئے۔ مگر آج میں انتہائی ندامت کے ساتھ اعتراف کرتا ہوں کہ میری مادری زبان میں لکھی کوئی ایک ایسی تحریر نہیں جو میرے پورٹ فولیو کا حصہ ہو۔
آخر ایسا کیوں ہے؟ ہم اپنی مادری زبانوں میں بات کرتے ہوئے کو شرماتے ہیں؟ کیوں اپنی علاقاوئی زبانوں سے دور ہوتے چلے جار رہے ہیں؟
میری پہلی بیٹی پیدا ہوئی تو ہم نے اسے اردو میں لاڈ پیار کرنا شروع کیا۔ وہ بات کرنے لگی تو اسے اردو ہی سکھاتے رہے۔ رفتہ رفتہ جب وہ بڑی ہوئی تو اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی سکھنانے کی کوشش کی۔ لیکن چند سالوں بعد جب اس نے میری ماں اور اپنی دادی کہانیاں سننا شروع کیں تو اسے بیشتر باتیں سمجھ نہیں آتی تھی۔ کیونکہ اماں جی کی کہانیاں تو ہندو زبان میں ہی تھیں۔ مجھے احساس ہوا کہ میری بیٹی کو جو ڈیڑھ زبان آتی ہے وہ اس کی دادی کو سمجھ آتی ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک ابلاغی دوری پیدا ہو رہی ہے۔ تب ہم نے اسے ہندکو سکھانا شروع کی۔
ہائی سکول کنڈل شاہی کے زمانے میں میرے کئی ہم جماعت اپنی ایک مخصوص مادری زبان ‘کنڈل شاہی’ میں بات کرتے۔ وہ لوگ جن کو کنڈل شاہی زبان سجمھ نہیں آتی تھی، اور صرف ہندکو یا اردو سمجھتے تھے، ہم اس زبان کے کچھ الفاظ سیکھ کر یہ زبان بولنے والوں کی تضحیک کے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت ہمیں یہ سب کرنا محض ایک مذاق لگتا تھا۔ لیکن کئی سالوں بعد آج جب ہماری آنکھوں کے سامنے کنڈل شاہی زبان معدوم ہو رہی ہے تو خود کو لوگوں میں شامل سمجھتا ہوں جس نے اس زبان کی تضحیک کی۔ اس زبان کے ختم ہونے میں بہت سارے دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اس زبان کی تضحیک بھی ایک فیکٹر ہو سکتا ہے۔
دنیا کے ساتھ بات چیت اور رابطے کے لیے ہمیں کئی زبانیں سیکھنا پڑتی ہیں اورر سیکھنا چاہیے بھی۔ انگریری بین الاقومی سطح پر رابطے کا ذریعہ ہے، چائینز پاکستان میں مستقبل کی زبان سمجھی جاتی ہے۔ عربی کے ساتھ ہماری ایک مذہبی وابستگی ہے، فارسی ہمارے لٹریچر کا حصہ ہے۔ ہمارے دوستوں کی مادری زبانیں، پنجابی، بلوچی پشتو اور سندھی وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ ہم اپنے کاروباری مقاصد کے لیے سیر و تفریح کے لیے اپنے شوق کے لیے کہیں ساری زبانیں سیکھتے ہیں۔ لیکن سوچنا یہ ہے کہ کہیں یہ سب ہم اپنی مادری زبان کی قیمت پر تو نہیں کر رہے؟
دوسری زبانیں بولنا اور سیکھنا ہماری طاقت ہے، لیکن مادری زبان ہماری بنیاد اور ہمارا اثاثہ ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنی طاقت بڑھانے کے چکر میں اپنی بنیاد سے ہٹتے جا رہے ہیں؟
کچھ سال قبل جب میں تعلیم کے لیے امریکہ میں تھا تو میرے کئی اساتدہ ایسے تھے جو انگریزی کے علاوہ دوسری کوئی زبان نہیں سمجھتے تھے۔ جب انہیں یہ پتہ چلتا تھا کہ میں تین یا چار زبانیں بول، لکھ اور پڑ ھ سکتا ہوں تو وہ اپنے کم علمی اور کم مائیگی کااعتراف کرتے کہ ہم لوگ صرف ایک زبان میں پھنسے ہوئے ہیں۔
چھوٹی زبانیں بولنے سے کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا بلکہ یہ زبانیں آپ کو دوسروں سے منفرد بناتی ہیں۔ آپ دن بھر جو مرضی زبان بولیں، دفتر میں اردو، سوشل میڈیا پر انگریزی جھاڑیں۔ راہ چلتے فارسی شاعری پڑھیں یا ہندی گانے گنگگنائیں، لیکن رات کو جب بیوی بچوں کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھیں تو کچھ جملے اپنی مادری زبان میں بھی بول دیا کریں۔ اس سے بچوں میں اپنی مادری زبان بولنے کا حوصلہ بڑھے گا۔
جلال الدین مغل گذشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ فری لانس ملٹی میڈیا رپورٹر کے طور پر انہوں نے آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کے متعلق مختلف موضوعات پر رپورٹنگ کی ہے۔ ان کا کام نیو یارک ٹائمز، انڈیپنڈنٹ اردو، وائس آف امریکہ، روزنامہ ڈان اور کئی دیگر قومی اور عالمی اخبارات اور جرائد میں شائع ہو چکا ہے۔