چند سال قبل جب آزاد کشمیر حکومت نے محکمہ اکلاس کو ختم کیا تو یہ توقع کی جارہی تھی کہ شائد اب جنگلات کے کٹاو میں نمایاں کمی آئے گی۔ لیکن یہ اندازہ غلط ثابت ہوا اور جنگلات کا کٹاو میں باوجود پہلے سے کئی گنا زیادہ ہو گیا۔ ایسا کیوں ہے؟ اور ایسے کونسے عوامل ہیں جو آزاد کشمیر بالعموم اور وادی نیلم میں بالخصوص جنگلات کے خاتمے کا سبب بن رہے ہیں۔
چند سال قبل تک آزاد کشمیر کے جنگلات سے لکٹری کی نکاسی دو محکموں کی ذمہ ہوتی تھی۔ ان میں سےمحکمہ اکلاس منڈیٹ جنگلات سے خشک اور گرے پڑے درخت کاٹ کرمارکیٹ میں فروخت کرنا تھا۔ دوسرا محکمہ جنگلات جو محدود پیمانے پر گرے پڑے درخت کی نکاسی کے ساتھ ساتھ محکمہ اکلاس پر نگرانی اور جنگلات کے مجموعی تحفظ پر مامور تھا۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ دنوں محکموں نے بلا امتیاز درختوں کو تہہ تیغ کیا۔ ان محکموں کے ٹھیکداروں نے مشکل اور ناقابل رسائی جنگلات کو چھوڑ کر آسان علاقوں سے سبز درخت کاٹ کر اپنا کوٹہ پورا کر لیا۔ جب محکمہ اکلاس کو ختم کیا گیا تو یہ لکڑی کی نکاسی کا سارے کا سارا کام محکمہ جنگلات کے سپرد ہو گیا۔
اگر اعدود شمار کا جائزہ لیا جائے تو پچھلے چند سالوں سے جنگلات کے کٹاو میں پہلے سے کئی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ کئی علاقوں میں جنگلات کے بچاو کے لیے مقامی لوگوں، ٹمبر مافیا اور محکمہ جنگلات کے درمیان تصادم تک ہوا اور محکمہ جنگلات نے اپنا وزن ہمیشہ ٹمبر مافیا کے پلڑے میں ڈالا۔ وادی نیلم کے جن پہاڑوں پر چند سال قبل گھنے سر سبز جنگلات تھے اب وہاں میدان اور چٹیل پہاڑ نظر اتے ہیں۔
اس وقت چار مختلف طریقوں سے جنگلات کا کٹاو ہو رہا ہے۔
مقامی لوگ اپنی ضرورت کے لیے تعمیراتی مقاصد کے لیے یا ایندھن کے لیے ہر سال درخت کاٹتے ہیں اور یہ سلسلہ کئی سالوں بلکہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ فی الوقت کوئی متبدل موجود نہیں، گیس ہے نہ بجلی ہے۔ منفی ٹمپریچر میں آپ نے زندہ رہنا ہو تو چاہتے نہ چاہتے درخت کاٹنا پڑتے ہیں۔ گھر بنانے کے لیے آپ کے پاس کوئی متبدل میٹریل موجود نہیں ہے تو پھر لکڑی حاصل کرنے کے لیے آپ کو درخت کاٹنا ہی پڑھا ہے۔
دوسرر طریقہ جنگلات کا کمرشل کٹاو ہے۔ تجارتی بنیادوں پر یا کمرشل کٹاو زیادہ تر حکومت کی سر پرستی میں یا محکمہ جنگلات کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ اگرچہ بظاہر حکومتی پالیسی یہ ہے کہ جنگل سے صرف خشک اور گر پڑے درختوں کی نکاسی ہو گی، لیکن عملا اگر دس گرے پڑے درخت کٹتے ہیں تو اس کے ساتھ پچاس ساٹھ سبز درخت کٹتے ہیں۔ ایسا ہونا سرکاری افسران اور اہلکاوں کی مرضی کے بغیر کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے۔ جب تک یہ لوگ سنجدگی سے اس کوروکنا نہیں چاہیں گے یہ سلسلہ روکنے والا نہیں ہے۔
تیسرا طریقہ نجی سطح پر جنگلات کا کمرشل کٹاو ہے۔ کئی لوگ نجی طور پر جنگل کاٹ اسے تجارتی بنیادو پرفروخت کرتے ہیں۔ اس میں بھی پرائیویٹ جنگلات کی آڑ میں زیادہ تر قومی جنگلات کا کٹاو ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ بھی سرکاری سر پرستی کے بغیر کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے۔
اور چوتھے طریقے سے جو جنگل کٹ رہے ہیں یا نقصان ہو رہے ہیں اس پر بات کرنا ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور اس پر بات کرنے کا کوئی خاطر خواہ فائدہ ہونے والا بھی نہیں۔ اس کو ہم زیادہ سے زیادہ ‘جنگ کے دوران نقصان جنگل’ کہہ سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم ان چیزوں کو روکیں کیسے؟ کیا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا؟ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو آنے والے چند سالوں میں آزاد کشمیر سے جنگلات ختم ہو جائیں گے۔
1947جب یہ خطہ آزاد ہوا تھا تو اس وقت کے اعداد و دشمار کے مطابق ستاون فیصد رقبے پر جنگلات تھے آج یہ تناسب کم ہو ک چھ فیصد تک رہ گیا ہے۔ جس حساب سے جنگل کٹتے جا رہے ہیں، اسی طرح سلسلہ جاری رہا تو میرا نہیں خیال اگلے پانچ دس سالوں میں کوئی جنگل باقی رہ جائے گا جس کو تجارتی بنیادوں پر کاٹا جا سکے۔
خود محکمہ جنگلات کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے گذشتہ سال تصدیق کی تھی کہ وادی نیلم میں سالانہ بنیادوں پر تقریبا ستر ہزار درخت کٹتے ہیں۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو گزشتہ دس سالوں میں صرف وادی نیلم میں سات لاکھ درخت کٹے۔ اتنے بے پیمانے پر درختوں کے کٹاو کا ماحول پر کیا اثر پڑے گا؟
ایک طرف وادی نیلم میں سیاحت کے فروخت کی باتیں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف اس علاقے کے قدرتی حسن کو مسلسل گہنا کیا جا رہا ہے۔
وادی نیلم سے کچھ لوگوں نے اس پر آواز اٹھانا شروع کی ہے اور کوئی کمیٹی بھی قائم کی ہے۔ وادی نیلم سے جو منتخب رکن اسمبلی ہیں انہوں نے ایک قرارداد پیش کی ہے کہ اس معاملے میں اسمبلی میں بحث ہونی چاہیے۔ اس قرارداد کو باقاعدہ طور پر بحث کے لیے 25فروری کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ اس دوران میری یہ گزارش ہے لوگوں کو کہ وہ ممبران اسمبلی کو باور کرائیں کہ جنگلات نہ صرف ہمارا اثاثہ ہیں، بلکہ یہ ہمارے مستقبل کے لیے ضامن ہیں۔ ان کو سونے کا انڈے دینے والی مغی سمجھ کر روازنہ کی بنیاد پر کاٹ کر بیچ دنیے کا مطلب یہ ہے کہ ہم قدرتی آفات کو دعوت دے رہے ہیں۔
سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو ایک ہی دن ذبح کر دیا گیا تو انڈے آنے کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائےگا۔
ہم سب کو مشترکہ طور پر حکومت سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کے وادی نیلم میں تجارتی مقاصد کے لیے جنگلات کے کٹاو پر اگلے بیس سال کے لیے پابندی عائد کر دی جائے۔
جلال الدین مغل گذشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ فری لانس ملٹی میڈیا رپورٹر کے طور پر انہوں نے آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کے متعلق مختلف موضوعات پر رپورٹنگ کی ہے۔ ان کا کام نیو یارک ٹائمز، انڈیپنڈنٹ اردو، وائس آف امریکہ، روزنامہ ڈان اور کئی دیگر قومی اور عالمی اخبارات اور جرائد میں شائع ہو چکا ہے۔