مارچ کا مہینا شروع ہوتے ہی پاکستان میں عورت مارچ کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔
یورپ نے 8 مارچ 1991 کو پہلی بارعورت کو تسلیم کیا اور وومن ڈے منایا۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ عالمی دن عورتوں پر ہونے والے تشدد، جبر، ظلم وزیادتی اوران کے حقوق کے لیے شروع کیا گیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد دنیائے عالمگیر میں عورت کی اہمیت اور اور اس کے
حقوق کو اجاگر کرنا تھا- جبکہ اسلام نے 1400 سال پہلے عورت کو زندگی دی پھر اسے پہچان دی۔
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت کو ہر شعبے میں مردوں کے برابر حقوق دیئے ہیں- زندگی کے ہر میدان میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں- اور ان کو ان کے کسی بھی حق سے محروم نہیں رکھا گیا- اسلام اخلاقیات کا درس دیتا ہے اور کچھ حدود عورتوں اور مردوں دونوں پر فرض کر دی گئی ہیں۔
ماہ مارچ کے آتے ہی عورت مارچ کا شور بھی پوری قوت سے سنائی دینے لگتا ہے اور ہر طرف یہ موضوع رفتہ رفتہ بحث بننے لگتا ہے- پاکستان میں پچھلے چند برسوں سے یہ دن بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے- اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کو خراج تحسین پیش کرنا ہے اور معاشرے میں ان کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
ہر سال مختلف شہروں میں خواتین ریلیاں نکلتیں ہے اور پاکستانی معاشرے میں خواتین پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کرتی ہے۔
پاکستان کا آئین شہریوں کو آزادیٔ اظہارکا حق دیتا ہے۔ آرٹیکل 19 کے مطابق ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق دیا گیا ہے ۔ دنیا میں دو طاقتیں ہیں ایک تلوار اور دوسرا قلم ، دونوں کے درمیان سخت مقابلہ ہے لیکن ایک تیسری طاقت ان دونوں سے بہت مضبوط ہے اور وہ ہے ‘عورت”۔ مزید فرماتے ہیں کوئی قوم ترقی کی بلندیوں کو نہیں چھوسکتی جب تک اسکی عورتیں شانہ بشانہ کھڑی نہ ہوں۔
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے مسلمانوں کو ایک آزاد مملکت لے کر دینے کے لیے دن دوگنی رات چوگنی محنت کی اور اپنے بھائی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ اور ان کی انہی کاوشوں کا نتیجہ ہے جو ہم آج آزادی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ارفع کریم نے صرف نو سال کی عمر میں مائیکرو سافٹ کی سند یافتہ پروفیشنل بن کر جو پورے ملک کا سر فخر سے اونچا کیا۔ فلائنگ آفیسر مریم مختیار، پاکستان کی پہلی خاتون فائٹرپائلٹ ہیں جن کو ڈیوٹی کے دوران پیش آنے والے حادثے میں شہادت نصیب ہوئی۔ یہ پاکستانی معاشرے سے ہی تعلق رکھنے والی خواتین ہے جنہوں نے ملک کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔
یہ بات درست ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو بہت سے مظالم سہنا پڑتے ہیں۔ کئی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کا خاطرخواہ انتظام نہیں کیاجاتا۔ اکثر و بیشتر ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں جن سے خواتین کے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر دل دہل جاتا ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سماجی مسائل پر آواز پڑھا لکھا طبقہ ہی اٹھاتا ہے مگر عورتوں کو جن مسائل کا سامنا ہے اس مارچ میں اُن کا کوئی تذکرہ دیکھای نہیں دیتا۔
میرا جسم میری مرضی، میک اپ، کھانا پکانا، گھر کے کام کاج جیسے موضوعات سے باہر نکل ہی نہیں رہے پا رہے- عورت آزادی مارچ کے لیے خواتین مہنگے اور مشہور برانڈز کے کپڑے پہنتی ہیں۔ کیا وہ جانتی ہیں کہ اس لباس کو بنانے کے لیے برانڈ والوں نے اپنے ہاں کام کرنے والی خواتین کو کتنا معاوضہ دیا؟ خود اس مارچ میں ملبوسات بنانے والے مشہور ڈیزائنرز موجود ہوں گے، کیا وہ ریلی کے شرکا کو بتائیں گے کہ وہ اپنے ہاں ملازمت کرنے والی خواتین کو کتنی اجرت دیتے ہیں؟
مریم قربان اسلام آباد میں نمل یونیورسٹی کی طلبہ ہیں۔ وہ رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ان دنوں وہ کشمیر لنک کے ساتھ انٹرن رپورٹر کے طور پر منسلک ہیں۔