ڈاکٹر مرضیہ عارف۔بھوپال
مولانا آزاد 11نومبر1888ء کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ان کا تاریخی نام فیروز بخت، اصل نام محی الدین احمد، کنیت ابوالکلام اور تخلص آزاد تھا۔ والد مولانا خیرالدین ہندوستان کے ایک علمی خاندان کے چشم وچراغ تھے جبکہ والدہ مدینہ منورہ کے ایک ذی مرتبہ خانوادے کی دختر تھیں۔ انہوں نے تعلیم بھی روایتی اور مذہبی پائی ابھی درسِ نظامی کی آخری جماعتوں سے گزررہے تھے کہ خداداد صلاحیت وذہانت کے جوہر کھلنے لگے۔ اسی عرصہ میں سرسید کے مطالعہ نے ان کے موروثی عقائد کی دنیا میں تہلکہ مچاکر اسے بغاوت پر آمادہ کردیا لیکن دستِ غیب کو اس متاعِ گم گشتہ کی حفاظت کرنا تھا چنانچہ جلد ہی راہ راست پر آگئے عہدطفولیت میں شعر وشاعری سے بھی دلچسپی پیدا ہوئی لیکن عنفوانِ شباب میں قدم رکھا تو اپنے دور کے وقیع رسائل ’’الصباح‘‘ لسان الصدق‘‘ وکیل‘‘ دارالسلطنت ‘‘ تحفہ احمد‘‘ اور الندوہ‘‘ کی ادارت کا فخر حاصل ہوا اور ادبی دنیا کی توجہ بے اختیارانہ مولانا کی جانب اس وقت مبذول ہوگئی جبکہ ان کی عمر15،16سال سے زائد نہ تھی چنانچہ1904ء میں لاہور کی انجمن ’’حمایت اسلام‘‘ نے اپنے سالانہ اجلاس کی صدارت کے لئے ایڈیٹر ’’لسان الصدق‘‘ کو مدعو کیا اس اجلاس میں ڈپٹی نذیر احمد، مولانا حالی، اور ڈاکٹر اقبال بھی موجود تھے مولانا ابوالکلام آزاد نے اجلاس میں خطبہ پڑھا تو بڑی مشکل سے حاضرین کو یقین آیا کہ یہ وہی آزاد ہیں جو ’’لسان الصدق‘‘ کے مدیر کے فرائض انجام دے رہے ہیں کیونکہ اس وقت ان کی عمر صرف16برس تھی اور اس عمر کے نوجوان سے اس ذہانت اور علم وفضل کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی، بہر حال اس کے بعد سارے ہندوستان نے ان کو جان لیا اور نہ صرف علامہ شبلی، شیخ عبدالقادر اور مولانا حالی جیسے معروف صحافی اور ادیب ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوگئے بلکہ عام مسلمانوں میں بھی ان کی شہرت ومقبولیت کا مظاہرہ ہونے لگا مولانا خود بھی مسلمانوں کی زبوں حالی کے پیشِ نظر ان کی جانب متوجہ ہوئے یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں میں اول تو سیاست سے بیگانگی کا وہ فلسفہ عام تھا جس کی سرسید احمد خاں عرصہ تک تبلیغ کرچکے تھے یا پھر علاحدگی پسندی کا وہ رجحان پنپ رہا تھا جسے سرآغاخاں کی مسلم لیگ نے پیدا کیا تھا۔ مولانا نے بے تعلقی اور علاحدگی پسندی کے اس طلسم کو شکست کرکے مسلمانوں کو قومی اور وطنی سیاست میں حصہ لینے کی دعوت دی ان کی آواز میں جو کڑک ، چمک اور للکار تھی، اس نے خوابیدہ مسلمانوں کو بیدار ہی نہیں کیا اس نئے جہاں کی سیر بھی کرائی جو انقلاب کی چنگاریوں سے بھرا ہواتھا اور یہی چنگاریاں تحریکِ خلافت کے دور میں شرارہ بن کر فضا کو دہکانے لگیں۔ نتیجتاً برصغیر میں وہ عدیم المثال تحریکِ ترک موالات شروع ہوئی جس نے محض دو سال کی مدت میں استعمار اور استبداد کے مستحکم قلعہ میں ایسی سرنگیں لگائیں کہ1947ء میں وہ ہمیشہ کے لئے منہدم ہوگیا۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی ذات کن کن صفات کی مظہر تھی، عقل ودانش، علوم ومعارف اور فہم وادراک کے کیا کیا جوہر ان میں پنہاں تھے اور ان کی شخصیت کے جلال وجمال کے کتنے نقش منظر عام پر آسکے اس کا علم شاید خود مولانا مرحوم کوبھی نہ ہوا ہو یہی ان کی جامع اور عجیب وغریب شخصیت ہونے کا ثبوت ہے مولانا نے بھی قدرت کی ان فیاضیوں کا پورے فخر کے ساتھ ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔
مذہب ، علوم وفنون، ادب و انشاء، شاعری کی کوئی وادی ایسی نہیں ہے جس کی بے شمار راہیں مبدء فیاض نے مجھ پر نہ کھول دی ہوں اور ہر آن وہر لحظہ نئی نئی بخششوں سے دامن مالا مال نہ ہوا ہو ۔۔۔۔‘‘
مولانا ایک بڑے عالم، مفسر اور علمِ کلام کے ماہر ہی نہ تھے سیاسی حالات کے مدوجزر پربھی انہوں نے گہری نظر رکھی، زندگی کے ابتدائی حصے میں یقینا سیاست سے ان کی غیرمعمولی دلچسپی ہی ان کی ادبی تخلیقات کے وجود کا باعث بنی کیونکہ اس دور میں مولانا نے جو کچھ لکھا اس میں سیاست کا عنصر زیادہ تھا لیکن اس کی ادبی حیثیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔ دراصل مولانا نے اس میں ان جملہ خصوصیات کو سمودیا ہے جو سیاست ہی نہیں زندگی کے ہر موضوع کو ادب بنادیتی ہے۔ انہوں نے1912ء میں ’’الہلال‘‘ اور1916ء میں ’’البلاغ‘‘ جاری کیا تو گویا ان دو رسالوں کے ذریعہ اردو صحافت کو معراج کمال تک پہنچادیا اور یہ ظاہری ومعنوی دونوں حیثیت سے اردو صحافت کے سنگ میل شمار کئے گئے اور ان کی ہمہ گیر مقبولیت کا اعتراف ڈاکٹر ذاکر حسین، غلام رسول مہر ، نیاز فتحپوری اور رشید احمد صدیقی جیسی معتبر ومسلم شخصیتیں کرچکی ہیں، الہلال نے مسلمانوں کے دلوں میں ہمت اور سر میں سودا پیدا کیا نیز ان کے مسائل کو اس دور بینی ، بلند نگاہی ، کشادہ دلی اور بے باکی سے اپنے صفحات پر پیش کیا کہ انگریز حکومت اس کا گلا گھونٹنے پر مجبور ہوگئی ۔1915ء میں مولانا کو بھی نظر بند کردیاگیا اس طرح ’’الہلال‘‘ اپنی موت آپ ضرور مرگیا لیکن عوام کے دلوں میں اس نے زندگی کی وہ مشعل روشن کردی جو ظلم وستم کی آندھیوں سے بھی بجھنے والی نہیں تھی۔
مولانا کی ہندوستان گیر مقبولیت اور شہرت کا ایک دوسرا سبب ان کی بے پناہ قوتِ گویائی اور سحر خطابت تھا جس کے مظاہرے ’’خلافت‘‘ انجمن حمایت اسلام‘‘ جمعیۃ علماء، کانگریس، جمعیۃ اہل حدیث کے اجلاسوں اور علامہ رشید مصری کی ترجمانی کے موقع پر بارہا ہوئے اور جس کی بابت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے اپنے ذاتی مشاہدے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ
’’ہندوستان کے باہر شاید دنیا کے کسی ملک نے ایسے آتش نوا، ایسے شعلہ بیان اور ایسے طوفان خیز مقرر پیدا کئے ہوں جو مولانا آزاد کی ہمسری کا دعویٰ کرسکیں‘‘
مولانا آزاد ایک بے مثال مدبر اور مستقبل پر نظر رکھنے والے انسان تھے ان کے سیاسی نظریات سے بعض کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ان کے خلوص وتدبر پر شبہ نہیں کیاجاسکتا خصوصاً ان کی ژرف نگاہی اور دقیق سنجی جس کو کام میں لاکر انہوں نے مستقبل کے پردہ میں جھانکنے کی کامیاب کوشش کی اور اپنے لئے جس راہِ عمل کا انتخاب کیا اس پر پوری عزیمت اور صدق دلی سے آگے ہی بڑھتے رہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا نے انگریز حکومت کی مخالفت اس وقت کی جب انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما اس کی وفاداری میں قرار دادیں منظور کررہے تھے، پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے مولانا قید وبند کا شکار بنائے گئے یہ وہ دور تھا جب مہاتماگاندھی انگریزی فوج کے لئے سپاہی
بھرتی کرارہے اور اس خدمت کے صلہ میں قیصرِ ہند کا اعزاز حاصل کررہے تھے کیونکہ اس وقت کے بیشتر سیاسی رہنمائوں کے سامنے مستقبل کا کوئی نقشہ نہ تھا جب کہ مولانا آزاد چشمِ تصور سے آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھ رہے تھے۔ مولانا کی اسی بصیرت سے متاثر ہوکر سراسیٹورڈکرپس نے کہا تھا۔
’’میں نے ایسا بالغ نظر، دور رس اور دور بیں سیاست داں نہیں دیکھا‘‘
لیکن ان کا ہی تدبر اور یہی بصارت اردو ادب وزبان کے لئے ایک المیہ بن گئی کیونکہ اس نے مولانا کو ہم سے نہیں خود ان سے بھی چھین لیا اور انہوں نے سیاست کے جس خاردار کو راہ نوردی کے لئے منتخب کیا اس کے کانٹوں نے آخر تک ان کے دامن کو نہ چھوڑا وہ خود اس کا اعتراف کرکے کہتے ہیں جیسے غالب کو شاعری نے اپنے لئے پسند کیا تھا اسی طرح سیاسی مشغولیتوں نے انہیں ڈھونڈ نکالا اور وہ اس کے تقاضے کو ٹال نہ سکے کہ اپنی عبقریت سے بھرپور کام لے سکتے۔
مولانا کی زندگی سوائے آخری چند سالوں کے بڑی ہنگامہ خیز گذری ان کی تخلیقات کا بڑا حصہ جنگ آزادی کی صعوبتوں کی نذر ہوکر ضائع ہوگیاتاہم جو کچھ محفوظ رہا اس میں صرف ’’تذکرہ‘‘ اور ترجمان القرآن‘‘ ان کی ایسی مستقل تصانیف ہیں جو منظر عام پر آسکیں ’’تذکرہ‘‘ کے بعض حصوں پر تاریخی اعتبار سے تنقید کی گئی لیکن اس کے منفرد اسلوب کا اعتراف سب نے ہی کیا ۔ ان کی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں سورہ فاتحہ کی تفسیر، اصحاب کہف اور سکندر ذوالقرنین کی شخصیتوں کے تاریخی تعین کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ اس کو ایک اجتہاد سے بھی تعبیر کیاگیا لیکن یہ تفسیر بھی ناتمام رہی ، اگر اپنے ذہنی خاکے کے مطابق مولانا یہ تفسیر مکمل کرسکتے تو کم از کم اردو میں یہ ایک بے مثال سرمایہ ہوتا۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے خطوط ’’غبار خاطر‘‘ اور ’’کاروان خیال‘‘ خود ان کی زندگی میں متعدد بار شائع ہوئے علاوہ ازیں علامہ شبلی، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریابادی اور غلام رسول مہر کے نام مکاتیب بھی منظر عام پر آچکے ہیں جن میں علمیت، ادبیت اور نکتہ سنجی کی ایک شان نمایاں ہے، ’’آزاد کی کہانی‘‘ مولانا کی روز مرہ کی زندگی کی آئینہ دار ہے اور اس میں تکلم بجائے خود ایک فن کا درجہ رکھتا ہے اور بقول آل احمد سرور مولانا ابوالکلام اردو میں اس فن کے سب سے بڑے ماہر تھے۔
Load/Hide Comments