اسلام سلامتی کا دین ہے اور ایمان کے معنی امن کے ہیں، اسلام ہر انسان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی ضمانت ہے۔
اسلام ایک ایسے انسانی معاشرے کی تشکیل و تلقین کرتا ہے جس میں انسان کسی بھی دوسرے انسان کا کسی بھی اعتبار سے غلام نہ ہو۔
انسان ایک دوسرے کے مددگار ہوں لیکن محتاجی تصور میں بھی نہ ہو، ایک دوسرے سے محبت کا رشتہ ہو اور ایک دوسرے کو برتر اور کم تر نہ سمجھا جائے، حرکت عمل ہو، آزادی عمل ہو اور دونوں میں باہم رشتہ ہو کہ حرکت و عمل کے ذریعے معاشرے کو سب کے لیے مفید اور کارآمد بنایا جائے۔
اسلام دراصل ایسی زندگی کی جانب آنے کی دعوت دیتا ہے جس میں طاقت، قوت اور حقیقی اختیار اللہ کا ہے اور وہی اس کا استعمال بھی کر سکتا ہے، انسان نیابت کرے لیکن وہ طاقت، قوت اور اختیار کو دوسرے انسانوں کو ڈرانے، دھمکانے، دبانے اور ان کو اپنے زیرنگیں کرنے کے لیے استعمال نہ کرے۔
جماعتِ اسلامی ایسے انسانی معاشرے کی تشکیل کے لیے جدوجہد کر رہی ہے جو ہر انسان کی حقیقی آزادیوں کا ضامن ہے، وہ اپنے نظریے کے مطابق زندگی گزارے۔
ان آزادیوں کو یقینی بنانے کے لیے ایسی حکومت کے قیام کی ضرورت ہے جس کا کام محض یہ نا ہو کہ وہ عوام سے یوٹیلیٹی بل اور ٹیکس جمع کرتی رہے بلکہ اس کا رویہ ایسا ہو جیسا اولاد کے ساتھ مہربان اور محبت سے بھری ماں کا ہوتا ہے، ماں جو کمزور اور معزور بچے سے زیادہ تعلق رکھتی ہے۔
جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر کے پیش نظر یہ کافی نہیں ہے کہ حکومت محض امن و امان قائم کرے، ریاست و مملکت کی جغرافیائی حدود کی دفاع کو یقینی بنائے بلکہ یہ بھی اسی کی اتنی ہی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی تعلیم کا بلا امتیاز انتظام کرے۔
انہیں صحتِ عامہ کی سہولتیں بہم پہنچائے، ان کی رہن سہن کی ضرورتوں کو یقینی بنائے، رزقِ حلال کے مواقع پیدا کرے، اور کسی تمیز و تفریق کے بناء ہر کسی کو اس کی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق روزگار فراہم کرے، ایسے صنعتی، زرعی، تجارتی، اور دیگر معاشی ذرائع متحرک کرے جن سے یہ ضرورت فطری انداز میں پوری ہو۔
اسلام کی عظمت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ مسلمان کے لیے تو باعث رحمت ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ دوسرے انسانوں کو کم تر نہیں قرار دیتا اور وہ ان کے جذبات، احساسات اور نظریات کی توہین کی اجازت مسلمان کو نہیں دیتا۔
درس یہ ہے کہ جب مسلمان دوسروں کے خداؤں کو برا بھلا کہے یا ان کے خدا کی وجہ سے غیر مسلمانوں سے برا سلوک کرے تو وہ حقیقی اللہ اور رب کو ردعمل میں برا بھلا کہیں گے، اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانی احترام کا پیغام دیتا ہے۔
اسلام نے جانوروں کے حقوق بھی متعین کیے ہیں اور ایک معمولی سے پودے کی زندگی بلاوجہ ختم کرنے، اسے تباہ کرنے سے روکا گیا ہے، جب لشکرِ اسلام روانہ کیا جاتا تو سپہ سالار کو ہدایت نامہ دیا جاتا اور اس کا لازمی حصہ یہ بھی ہوتا کہ درختوں کو مت کاٹنا۔
جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ پاکستان ہو یا عالمِ اسلام یا عالم تمام، تفرقات، تعصبات، تقسیم اور انتشار سے انسان کو نجات دلائی جائے، امن اور محبت و احترام کا پیغام عام کیا جائے۔
علمی مباحث کو تصادم اور خلفشار کا ذریعہ نہ بننے دیا جائے کیوں کہ یہ سطحی تنازعات ہیں، جماعتِ اسلامی مسلک کے بجائے پورے دین کی طرف دعوت دیتی ہے۔
جماعت اسلامی کی پیش نظر یہی تقاضا تھا جس کو پورا کرنے کے لیے ملی یکجہتی کونسل کی صورت میں مشترکہ پلیٹ فارم اختیار کیا گیا اور یہ کونسل فروعی اور مسلکی مسائل کا حل پیش کرتی ہے اور یہ سیاسی پلیٹ فارم نہیں ہے۔
کونسل نے یہ احتمام بھی کیا ہے کہ مساجد کے لیے جمعہ کے خطبات تیار کیے اور موضوعات طے کر دئیے، ہم معاشرے میں ہم آہنگی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
انتخابات میں دینی جماعتوں کا ووٹ متفرق حکمت عملی کی وجہ سے کٹ جاتا ہے لہذا مختلف دینی جماعتوں کی قیادت نے باہم مشورے سے یہ فیصلہ کیا کہ ووٹ کی تقسیم کو روکا جائے۔
یہ ایک اصولی فیصلہ ہے، یہ کوشش کی جائے گی کہ ایک دوسرے کی لیے زیادہ سے زیادہ تعاون اور سہولت فراہم کی جائے گی۔
مقصد یہ ہے کہ قوم کے سامنے ایک متبادل سیاسی قوت کی طور پر آیا جائے، پر امن اور ترقی پسند پاکستان کے لیے اس حکمت عملی کو ضروری سمجھا گیا، ہم دینی و ملی شناخت کو مقامی، علاقائی اور مسلکی فروعات اور تعصبات سے نکالنے کی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔
متحدہ مجلس عمل میں مختلف المسالک جماعتیں شامل ہیں، ہم ان تمام لوگوں کے لیے اسے پلیٹ فارم بنانا چاہتے ہیں جو اسلام کی حقیقی سر بلندی، پاکستان کے استحکام، پاکیزہ معاشرے کے قیام اور صاف ستھری حکومت سازی پر یقین رکھتے ہیں اور کام کرنا چاہتے ہیں۔
متحدہ مجلس عمل کو اس کے بزرگوں نے اس لیے قائم کیا تھا کہ ہماری بکھری اور منتشر قوت کو ایک تنظیم میں منظم کرکے قوت بنا دیا جائے، ملک سے فرقہ واریت اور لاثانی عصبیتوں کا خاتمہ ہو۔
اسلام پسند اور دینی قوتیں جمہوری راستہ اختیار کرتے ہوئے بھرپور طریقے سے انتخابات میں کامیاب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچیں اور ملک کو دستور کے مطابق چلائیں۔
ملک دشمن اور سیکولر عناصر کسی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اس کے اسلامی نظریاتی اساس پر قائم رہتے ہوئے برداشت نہیں کر سکتے لیکن ایم ایم اے کے قائدین نے مل کر ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیا کہ مذہبی قوتوں کے نمائندوں کی بڑی تعداد پارلیمان تک پہنچ گئی۔
اب دوبارہ صورت حال یہ ہے کہ پوری قوم انتشار کا شکار ہے، بے یقینی کی کیفیت چلی آ رہی ہے، ایک بار پھر قوم کی نظریں منتظر ہیں کہ مذہبی قیادت جمع ہو کر قوم کی صحیح رہبری اور رہنمائی کرے۔
آج ہمارے ملک میں تقسیم در تقسیم چلی ہوئی ہے اور پوری قوم گروہوں اور پارٹیوں میں بٹی ہوئی ہے، یہ تقسیم انتہائی خطرناک ہے اور اس لیے یہ اتحاد ملک کے لیے بہت ضروری ہے۔
یہ بات اطمینان بخش ہے دینی جماعتوں کا کوئی رہنما پاناما لیکس یا کرپشن میں مطلوب یا شامل نہیں ہے، ان جماعتوں کی کوشش ہے کہ سیاسی عمل میں شامل ہوں تاکہ تشدد پر یقین اور اسلحہ کی سیاست کرنے والوں سے معاشرے کو بچایا جا سکے۔
اس طرح ہم سیاست میں مثبت رجحانات، وفاق پاکستان، قانون کی حکمرانی اور اداروں کے استحکام میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
Load/Hide Comments