‘اللہ باجی، مولا تمہیں خوش رکھے۔ اللہ جوڑی سلامت رکھے۔ چاند سا بیٹا دے’، یہ اور اسی طرح کی دیگر دعائیں ہمیں تقریباً روزانہ ہی سننے کو ملتی ہیں اور ان دعاؤں کو فراخ دلی سے دوسروں پر لٹانے والے خواجہ سراؤں یا مخنث افراد کے ساتھ ہونے والا سلوک بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔بے تحاشا میک اپ سے لتھڑے ہوئے چہروں کے ساتھ شادی بیاہ کی محفلوں کو ناچ گانے سے رنگین بناتے یا سڑکوں پر بھیک مانگتے یہ خواجہ سرا شاید لوگوں کو محض ہنسنے کا سامان معلوم ہوتے ہیں۔لیکن پھر 2009 میں ‘ابن آدم’ کے اس مظلوم اور کچلے ہوئے طبقے کے لیے موسمِ بہار کی نوید آئی، جب عدالتی حکم نامے کے تحت اس صنف کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا حکم دیا گیا اور نادرا نے جنس کے خانے میں مرد اور عورت کے ساتھ ‘مخنث’ کا اضافہ بھی کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سرکاری نوکریوں میں بھی خواجہ سراؤں کا دو فیصد کوٹا مقرر ہوا، چند ایک کو نوکریاں بھی ملی لیکن تنخواہ ندارد۔ ان ہی میں سے ایک ڈبل ماسٹرز رفعی خان تھیں، جو 10 ماہ تک تنخواہ کے لیے آواز اٹھاتی رہ گئیں، لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ سرکاری نوکری نہ سہی لیکن اب وہ ‘داؤد فاؤنڈیشن’ کا حصہ ہیں اور بہت خوش ہیں کہ تعلیم ان کے کام آ رہی ہے۔ٹرانس جینڈر کامی سڈ سوشل ایکٹوسٹ، فیشن ماڈل اور اداکارہ بن کر ابھریں، بات یہاں رکی نہیں بلکہ معاویہ ملک نے بھی پاکستان کی پہلی خواجہ سرا نیوز کاسٹر کا خطاب حاصل کر بین الاقوامی شہرت پائی۔2017 کی مردم شماری میں پہلی بار اس صنف کو جگہ دی گئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں خواجہ سراؤں کی تعداد 10 ہزار 418 ہے، لیکن جینڈر انٹریکٹو الائنس(جیا) کی بندیا رانا یہ تعداد لاکھ سے اوپر بتاتی ہیں۔
مقبول خبریں
تازہ ترین
- موجودہ حکومت کو عوام مسترد کر چکے،سخت نہیں اچھے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے،اسد عمر
- پاکستان کی سیاست عمران خان کے گرد گھومتی ہے ‘ہمایوں اخترخان
- عمران خان ناکام مارچ کے بعد عدالت کا کندھا استعمال کرنا چاہتے ہیں، عرفان صدیقی
- مہنگائی بم کی دوسری قسط جون میں آئے گی، پرویز الٰہی
- ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز، 16 رکنی قومی سکواڈ کا اعلان
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments