فرزند غازی ملت

ہزاروںسال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
میں اُس کے قبیلے سے تھا اور نہ ہی پارٹی سے ۔وہ میرے حلقے سے تھا اور نہ ہی ضلع سے۔ ہمارے سیاسی نظریات الگ تھے وہ ایک ریاستی جماعت کا مقتدر سربراہ اور میں ایک مخالف پارٹی کا سرگرم اور فعال کارکن لیکن ہمارے مابین محبت و مودت کا ایسا رشتہ قائم تھا جس سے کچھ لوگ خائف لیکن اکثر رشک بھری نگائوں سے دیکھتے۔ میں سوچ رہا ہوں اتنا ہمدرد اور غمگسار مُجھ سے تھا تو پھر دن رات ساتھ چلنے والوں سے شفقت اور پیار کا انداز کیا ہوگا۔اُس کی موت اور جُدائی نے مجھے ہفتہ بھر سے نڈھال کر رکھا ہے۔ تو پھر اُن کا رکنوں کاحال کیا ہوگا جو بیس پچیس سالوں سے اُس کے رفیق کار تھے۔
جب میںنے سنا کہ وہ ہمیں اچانک داغِ مفارقت دے گیا پہلے تومجھے یقین نہ آیا۔ میںنے اسلام آباد میں اپنے ایک عزیز کو کال کی تو اُس نے روتے ہوئے موت کی تصدیق کر دی۔ سردار خالد ابراہیم خان کی اچانک موت نے مضبوط اعصاب والے بڑے بڑے دل گردے والوں کو بھی تڑپا کر رکھ دیا۔ لوگ سکتے میں آگئے  پورا ملک سوگوار ہو گیا۔ خود میرے اوسان خطا ہو گئے ۔میرے جبر اور صبر کے سارے بند ن ٹوٹ پڑے۔ گلہ بند آواز رندگئی آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب تھا کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ گھر والے مُجھے پھوٹ پھوٹ کر اور بلک بلک کر روتے دیکھ کر خود پریشان ہوگئے۔ اب میں کیا بتاتا گھر والوں کو وہ تو خالد ابراہیم کی شخصیت کردار اورشفقت کے حوالے سے بے خبر تھے۔
سردار خالد ابراہیم خان ایک بڑے نامور باپ کا بیٹا توتھا ہی لیکن دیگر نسبتیں بھی کم نہ تھیں۔ اُن کی اہلیہ محترمہ سابق صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمدایوب خان کی بھانجی اور سابق سفیر جنرل عبدالراحمن کی بیٹی سابق سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب خان اور موجودہ مرکزی وزیر عمر ایوب کی پھوپھی زاد بہن ہیں۔مرحوم کے فرسٹ کزن اس وقت ریاست جموں و کشمیر کے صدر ہیں۔ مرحوم کی سگی بھابی اس وقت قومی اسمبلی کی ممبر ہیں۔ ان ساری نسبتوں کے باوجود وہ ایک سادہ منش انسان تھا نہ پروٹوکول کا رسیا اور نہ کسی کرّو فر کا قائل ۔
دشمنوں سے درگزر اور دوستوں کے دوست سردار خالد ابرہیم خان کی اصولی سیاست ، عوامی خدمت ، طرز زندگی اور طرزحکمرانی پر آئندہ کالموں میں ان شاء اللہ تفصیلی ذکر کروں گا۔ اس نشست میں صرف راقم اور مرحوم کے ذاتی تعلقات ، ان کی شفقت اور مہربانیوں کے چیدہ چیدہ واقعات پر روشنی ڈالوں گا۔
سردار خالد ابراہیم خان کے ننھال خاندان سے راقم کا تعلق 1967ء سے چلا آ رہا ہے ۔ جب میں راولاکوٹ میں زیر تعلیم تھا اس وقت میرے بڑے بھائی جان حاجی محمد خان وہاں خالد ابراہیم صاحب کے ماموں سردار محمد نسیم خان کی دکان کے کرائے دار تھے ۔کشمیربک ڈپو کے نام سے قائم اس دکان کے سامنے جگلڑی والوں کی عنائت بیکری تھی جس پر سردار محمد نسیم خان اکثر بیٹھا کرتے تھے۔غازی ملت کے سسر حاجی سردار محمد قاسم خان دن کو بازار آتے اور بیکری کے متصل ماسٹر روشن کی دکان پر بیٹھتے ۔ ماسٹر صاحب چائے منگواتے اور ہماری دکان سے کوہستان اخبار منگوا کر پڑھتے۔ خالد صاحب کے ایک اور ماموں سردار محمد خورشید خان (ریٹائرڈ سیکرٹری حکومت) میرے سینئر کالج فیلو تھے پوٹھی بالا کے سابق سیکرٹری حکومت سردار مشتاق احمد خان اور پلندری کے سردار محمد افضل خان (ر) تحصیلدار اور غازی رضا ئو لدین سے مل کر شوکت ہوٹل میں NSF بنائی ۔یادوں کے دریچے کھل جائیں تو پھر بات کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے۔ 1968ء میںمیٹرک کے بعد میں سیالکوٹ چلا گیا اور راولاکوٹ آنا جانا کم ہوگیا۔ 1988 ء میں سول سروس میں آنے کے بعد میری پہلی پوسٹنگ بھی راولاکوٹ ہی میں ہوئی اور جائننگ والے دن شام کا کھانا میرے پیش رو سردار محمد یونس خان مرحوم کے ہمراہ سردار خالد ابراہیم خان کے ماموں زاد بھائی سردار طارق اسلم کے” الحبیب ہوٹل” پر کھایا ۔یاد پڑتا ہے کہ طارق صاحب نے کھانا کا بل لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس خاندان کے ساتھ تعلقات اور ملاقاتوں کا یہ ایک نیا آغاز تھا ۔راولاکوٹ میں غازی ملت سردار محمد ابراہیم کے سیاسی معاملات کی دیکھ بھال اسی خاندان کے ذمہ تھی جنہیں لوگ” الحبیب ہوٹل” والے کے نام سے پکارتے تھے۔
1990 میںنیو یارک میں مقیم ہمارے عزیز راجہ محمد حلیم خان کی شادی راولاکوٹ سے ہوئی۔ اس رشتہ میں خالد صاحب نے کلیدی رول ادا کیا۔ وہاں سے ہماری یہ واقفیت اور تعلقات دوستی میں تبدیل ہو گئے۔ غازی ملت کی امانت و دیانت کے قصے تو پہلے سے سن رکھے تھے ۔ اب جب سردار خالد ابراہیم سے واسطہ پڑا تو انہیں ایک عجیب شخص کے روپ میں پایا۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان انہیں پاکستان کے ایک سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان سے تشبیہ دیا کرتے تھے لیکن سچ تو یہ ہے کہ سردار خالد ابراہیم خان نے قومی سیاست میں جو نقش پا چھوڑے ہیں ان کی مثال نہ صرف آزادکشمیر بلکہ پاکستان میںبھی ملنا مشکل ہے۔اس لیے نوابزادہ نصراللہ خان سے موازنہ در اصل سردار خالد ابراہیم کی پاک صاف شخصیت کے ساتھ نا انصافی ہے ۔ ہاں البتہ اگر میں یہ کہوں کہ امانت و دیانت میں وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات کے امین اور وارث تھے تو بے جا نہ ہوگا۔
میں جب یہ کالم لکھنے کے لیے ذہنی طور پر سنبھلا تو عنوان کی تلاش شروع کر دی لیکن مجھے وہ الفاظ نہیں مل رہے تھے جن کے ذریعے خالد صاحب کی مُجھ پر شفقت و عنایات اُن کی اصولی سیاست ، میرٹ کی پاسداری ، عوامی حقوق کی جنگ ، حق گوئی و بیباکی ، قانون کی سربلندی ، جمہوری روایات کی پاسداری اور دیانت و امانت کے بارے میں لکھ سکوں۔ وہ حقیقت میں آزادکشمیر کی سیاست میں ایک نئی طرح ڈالنے والا(وکھرے ٹائپ کا) عجیب شخص تھا۔ دوستوں کا دوست اور دُشمنوںسے درگزر کرنے والا۔ پاکستان کا عاشق اور کشمیر کی آزادی کے لیے سب کچھ قربان کرنے والا۔ اقبال کے شاہین کی تمام صفات سردار خالد ابراہیم میں موجود تھیں۔ ضمیر کا قیدی ، راست باز ، کردار و گفتار کا غازی، مدلل، منفرد اور جامع بات کرنے والے۔ خالد ابرہیم کی موت ایک قومی سانحہ سے کم نہیں اُن کی موت کسی قبیلے کی نقصان ہے اور نہ ہی علاقے کا کسی جماعت کا نقصان ہے اور نہ ہی کسی مخصوص طبقے کا ۔ وہ ہم سب کو سوگوار کر گئے۔ بقول شاعر:
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے جہاں کو ویران کر گیا
یہ جانتے ہوئے بھی کہ راقم کا تعلق نہ صرف مسلم کانفرنس سے ہے بلکہ جماعت کا مرکزی عہدیدار بھی ہوں وہ مجھ پر ہمیشہ مہربان رہے ۔ میرے غریب خانے کو چار دفعہ رونق بخشی۔اس سال مارچ میں وہ بڑے بھائی جان کی وفات پر تعزیت کے لئے تشریف لائے اور اور یہی اُن کی اور میری آخری ملاقات بھی تھی۔ تین دفعہ بیٹے ، بیٹیوں کی شادی میں جب بھی آئے بروقت آئے۔ خود ڈرائیو کرتے پہنچتے تھے۔ نہ استقبالیہ لائینیں،نہ کارکنوں کا ہجوم اور نہ ہی ہٹو بچو کی صدائیں، جب فون کرتے تو خود کرتے کوئی پی اے ہوتا نہ ہی آپریٹر۔
1999 ء میں غازی ملت صدر ریاست تھے ۔ خالد صاحب ایم ایل اے  میں نے خالد صاحب کو اپنے گائوں آنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول فرمائی۔ راولاکوٹ سے روانہ ہونے لگے تو کہنے لگے آپ میری گاڑی میںبیٹھیں ۔ سرکاری گاڑی میرے ساتھ نہیں جاسکتی۔
  ہمارے گائوں کی میٹنگ میں اُن کی پارٹی کے ایک کارکن نے تقریر کرتے ہوئے میری طرف اشارہ کیا کہ ”یہ مسلم کانفرنس کے ہیں” آپ ان کی دعوت پر تشریف لے آئے لیکن جو ترقیاتی سکیم آپ دینگے وہ کام ہمارا جماعتی کارکن کرائیگا۔ سردار خالد ابراہیم کو اس بات پر بہت غصہ آیا اور کہا کہ” حسرت صاحب” سے تعلقات سیاسی وابستگی سے ہٹ کر ہیں یہ میرے دوست ہیں ترقیاتی سکیم اُن کا مطالبہ تھا اور نہ میرا ادارہ لیکن اب ایک لاکھ روپے اُن کی ڈسپوزل پر چھوڑتا ہوں ۔ سکیم کی نشاندہی بھی کریں گے اور کام بھی خود کرا کر بل وصول کریں گے۔ اسی طرح میرے بیٹے کو راولاکوٹ پولی ٹیکنیکل انسٹیٹوٹ میں ڈاخلہ نہیں مل رہا تھا اُن سے ذکر کیا تو وزیر اعظم وقت سے ایک نئی سیٹ تخلیق کرانے کی تحریک کر کے منظوری حاصل کر لی۔
سال 2000 ء میں راقم کا اچانک تبادلہ مظفرآباد کر دیا گیا جب سردار خالد ابراہیم کو پتہ چلا تو وہ فوراً مظفرآباد چلے گئے اور حکم تبادلہ منسوخ کروا لائے۔ راولاکوٹ پی پی اورجے کے پی پی کے کارکنوں نے ملکر خالد صاحب سے شکایت کی کہ لطیف حسرت صاحب اور فضل حسین ڈار ملازم ہو کر بھی مسلم کانفرنس کی سرگرمیوں میںحصہ لیتے ہیں۔ اس لیے اُن کو یہاں سے تبدیل کیا جائے۔ کہتے ہیں کہ خالد صاحب کو اتنا غصہ آیا کہ شکایت گزاروں کو بے عزت کر کے دفتر سے نکال دیا۔
سال 2004-05 ء میں سردار سکندر حیات خان وزیر اعظم تھے ۔ میں اُن دنوں راولاکوٹ میں تعینات تھا۔ وقت کے ایک وزیر کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد میں نے استعفیٰ دے دیا ۔ خالد صاحب کو پتہ چلا تو افسوس کے اظہار کے لیے فون کیا ۔ استعفیٰ واپس لینے کا کہا اور کہنے لگے آپ کے گھر اظہار ندامت کے لیے آنا چاہتا ہوں ۔ ہائے کیا شخص تھا۔
حکومت کی طرف سے ہر ایم ایل اے کو سالانہ پندرہ کلومیٹر سڑکیں ملتی ہیں ۔ غالباً سال 2003 میں ، میں نے اُن کے حلقے میں ایک کلو میٹر سڑک کی نشاندہی کی تو کہنے لگے حسرت صاحب آپ لیٹ ہو گئے ہیں میں نے ساری سکیموں کی نشاندہی کر دی ہے۔ میں نے کہا شکریہ اگلے سال خیال رکھنا۔ تیسرے چوتھے دن اُن کے پی ایس نثار شمیم نے فون کر کے خالد صاحب سے بات کرائی تو خالد صاحب نے کہا کہ حسرت صاحب ایک دوسرے علاقے سے سکیم کاٹ کر میں نے آپ کے لیے رکھی ہے آپ اس کی تفصیلات کل تک ایکسین رالاکوٹ کو پہنچا دیں۔ میں اُن کی اس مہربانی اور نوازش کو ساری زندگی نہ بھول پائوں گا کہ انھوں نے اپنے کسی کارکن کے کہنے کے بجائے میرا مان رکھ دیا۔
اپنوں نے غم دیئے تو یاد آگیا وہ
اک اجنبی جو غیر تھا اور غم گسار تھا
غالباً سال 2000 میں خالد صاحب کی امی کی سالانہ برسی کے موقعہ پر ہم لوگ کھانا کھا رہے تھے ڈپٹی کمشنر پونچھ اور میں ساتھ ساتھ بیٹھے تھے ۔ خالد صاحب کو ہم پر نظر پڑی تو چل کر ہمارے پاس آئے اور دور کھڑے اپنے پی ایس کو اشارے سے بلا کر کہا کہ حسرت صاحب کا ڈونگہ خالی ہے۔میرے ساتھ بیٹھے سارے لوگ حیران رہ گئے کہ سردار خالد ابراہیم میرا کتنا خیال رکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں