آنسوؤں کے سنگ بٹتی مٹھائی

کبھی کبھی ایک لفظ ایک لمحہ یا ایک منظر اپنے اندر ماضی حال و مستقبل پہ مشتمل پوری کہانی سموۓ ہوتا ہے۔ یہ کہانی ماضی کی یادوں ، حال کی خوشی یا غم اور مستقبل کے اندیشوں و امیدوں کی ایک جامع تفسیر ہوتی ہے۔ یہ کہانی اور بھی معنیٰ خیز و بھرپور ہو جاتی ہے جب اس کہانی میں ایک پوری قوم کا ماضی حال اور مستقبل جھلک رہا ہو۔

اسی طرح کی کہانی کی عکاس ایک تصویر میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ جو کہ مقبوضہ کشمیر کے ہر گھر کی کہانی ہے۔وہ کشمیر جہاں کا شیر خوار بچہ پیلٹ گن کے چھروں کے کارن رب کائنات کی بنائی خوبصورت دنیا کو دیکھنے سے مرحوم کر دیا جاتا ہے۔ وہ کشمیر جہاں عزت ماب ماؤوں، بہنوں، بیٹوں کے آنچل درندے نوچ لیتے ہیں۔ وہ کشمیر جہاں قلم کی جکہ ہتھیار اٹھانا ہی نوجوانوں کو بقاء کا رستہ نظر آتا ہے۔ وہ کشمیر جہاں کے بوڑھے باپ جوان بیٹوں کا لاشہ اپنے ناتواں کندھوں پہ اٹھاتے ہیں۔

کشمیر کی کہانی کی ترجمان اس تصویر میں ایک رنج و الم اور آنسوؤں سے بھری آنکھوں والی بچی ہے ۔ جو اپنے ہاتھوں میں مٹھائی کی ٹرے پکڑے بھائی کی میت کو تک رہی ہے۔وہ بھائی جس کے ماتھے پہ سہرا سجا دیکھنا بہن کا ارمان تھا اور اس مٹھائی کو ہنسی خوشی سکھیوں سہیلیوں میں بانٹنے کی آرزو رہی ہوگی اس نھنی گڑیا کی۔

دنیاوی لحاظ سے جوان بھائی کی موت پہ مٹھائی باٹننا ایک عجیب و غریب عمل لگتا ہے۔لیکن قربان جاؤں ان ماؤوں بہنوں بیٹیوں پہ جو اپنے پیاروں کے جنازوں پہ مٹھائی تقسيم کرتی ہیں کیونکہ یہ عام جنازے نہیں اللہ کی جنتوں کے وارث حورعین کے دلہوں کے جنازے ہیں جو ظلم و جبر کے خلاف جہاد کرتے اپنی جان تک وار دیتے ہیں۔ ننھی شہزادی جیسی بہنیں آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ مٹھائی تقسیم کرتے ہوۓ یہ سوچتی ہوں گی کہ میرا دلارا بھائی میرے آنچل اور کشمیر کی آزادی کے لئے شہید ہوا ہے۔ اس کے خون سے آزادی کی صبح روشن ہوگی اور روز قیامت یہ شہید میری شفاعت کرکے مجھے اللہ کی جنتوں کا وارث بناۓ گا۔ جس کے بارے میں رب کعبہ کا فرمان ہے۔

“جو آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے وہی اصل میں کامیاب ہے” (آل عمران185)
Attachments area

اپنا تبصرہ بھیجیں