گزشتہ روز پروگریسیو اسٹوڈنٹس کلیکٹیو، اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور ان کے ساتھ شامل دیگر طلبہ تنظیموں نے یونین کی بحالی کے لیے طلبہ یکجہتی مارچ کیا۔مارچ میں طلبہ سمیت متعدد افراد نے شرکت کی جس میں یونین کی بحالی اور طلبہ کے حقوق سے متعلق مطالبات پیش کیے گئے۔اس دوران بینرز، پلے کارڈز، پروپس اور نعروں میں لال رنگ نمایاں دکھائی دیا۔ ساتھ ہی متعدد طلبہ و طالبات سُرخ رنگ کے ملبوسات میں نظر آئے۔دراصل لال رنگ کی ایک گہری تاریخ ہے جس کے تحت طلبہ نے اسے اپنی تھیم بناتے ہوئے احتجاج کو نمایاں کیا۔لال رنگ بنیادی طور پر سوشلزم، کمیونزم اور مارسزم کی علامت ہے جو فرانسیسی انقلاب کے بعد سے بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ ہے۔ اس کے ذریعے بادشاہت کا تختہ الٹا گیا اور 18 ویں صدی کے آخر میں ایک جمہوری دور قائم ہوا۔طلبہ نے یکجہتی مارچ میں لال رنگ کو مزاحمتی علامت کے طور پر استعمال کرکے واضح کیا کہ لال رنگ دنیا میں کہیں بھی ناانصافی، بے رحمی اور غیر جمہوری کاموں کے خلاف شدید ضرورت پڑنے پر تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ طلبہ نے یکجہتی مارچ میں لال رنگ سے نعرے بھی منسوب کیے جن میں’ جب لال لال لہرائے گا تب ہوش ٹھکانے آئے گا‘ نعرہ بھی شامل تھا۔
مقبول خبریں
تازہ ترین
- موجودہ حکومت کو عوام مسترد کر چکے،سخت نہیں اچھے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے،اسد عمر
- پاکستان کی سیاست عمران خان کے گرد گھومتی ہے ‘ہمایوں اخترخان
- عمران خان ناکام مارچ کے بعد عدالت کا کندھا استعمال کرنا چاہتے ہیں، عرفان صدیقی
- مہنگائی بم کی دوسری قسط جون میں آئے گی، پرویز الٰہی
- ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز، 16 رکنی قومی سکواڈ کا اعلان
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments