لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ مدرسے کے طالب علم کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیو گذشتہ ہفتے وائرل ہونے کے بعد گرفتار کیے جانے والے استاد مفتی عزیز الرحمٰن نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔
مفتی عزیز الرحمٰن کو پیر کو شمالی چھاؤنی پولیس نے چھاونی کچہری میں پیش کیا اور عدالت سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس پر عدالت نے انہیں چار روزہ ریمانڈ پر بھیج دیا۔
گذشتہ ہفتے مدرسے کے طالب علم کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیو منظر عام پر آنے اور متاثرہ طالب علم کی ایف آئی آر کے بعد مفتی عزیز اور ان کے بیٹوں کو اتوار کو گرفتار کیا گیا تھا۔
مفتی عزیز الرحمٰن اور ان کے بیٹوں کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 377 (غیر فطری جنسی عمل) اور 506 (سنگین دھمکیاں دینے) کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
لاہور کے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن شارق جمیل نے پیر کو ایک میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ مفتی عزیز الرحمٰن کے خلاف مضبوط چالان پیش کریں گے اور کوشش کریں گے کہ ملزم کو عدالت سے سخت سے سخت سزا دلوائیں۔
ڈی آئی جی شارق جمال کا سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’صرف ماہرین ہی اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ یہ ویڈیو کتنی پرانی ہے۔‘
اس سے قبل سی آئی اے لاہور کے ایک اعلیٰ افسر نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سینیئر نائب امیر اور لاہور کے ایک مدرسے کے استاد مفتی عزیز الرحمٰن نے دوران تفتیش طالب علم کے ساتھ جنسی زیادتی کا اعتراف جرم کیا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ دوران تفتیش عزیز الرحمٰن نے پولیس کو یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد طالب علم سے صلح کی کوشش بھی کرتے رہے اور اس کے والدین کو اس سلسلے میں لاہور بھی بلایا لیکن چونکہ ایف آئی آر کے بعد پولیس انہیں ڈھونڈتی پھر رہی تھی اس لیے وہ چھپ گئے اور لڑکے کے والدین سے ملاقات نہیں ہو سکی۔
مفتی عزیز الرحمٰن نے پولیس کو دیے اپنے اعترافی بیان میں کہا ہے کہ متاثرہ لڑکے نے جو ویڈیو چھپ کر بنائی وہ ان ہی کی ہے۔ بیان کے مطابق انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے طالب علم کو ’پاس کرنے کا جھانسہ دے کر اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ’خوف اور پریشانی کا شکار ہو گئے، اس لیے ان کے بیٹوں نے طالب علم کو دھمکایا اور اسے کسی سے بات کرنے سے روکا۔‘
بیان کے مطابق طالب علم کو منع کرنے کے باوجود اس نے ویڈیو جاری کر دی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ’مدرسہ چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اس لیے ویڈیو بیان جاری کیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ مدرسے کے منتظمین مدرسہ چھوڑنے کا کہہ چکے تھے اور ان کی فون لوکیشن بھی ٹریس ہوتی رہی، جس کے ذریعے پولیس ان تک پہنچ گئی۔
انہوں نے بیان میں کہا: ’میں اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہوں۔‘