مانا کہ نصاب کے معاملے پر کچھ بہتری آ رہی ہے. پہلے میں اپنے دو بچوں کی کتابیں کاپیاں 12 سے 15 ہزار کی خریدتا تھا اب صرف 1500 میں مل گئیں اور نیشسل کریکیولم کے ذریعے یکساں نظامِ تعلیم کی طرف بڑھتے ہوئے بہتری بھی آ رہی ہےمگر جس طرح Covid 19 کے دوران تعلیم کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا اس کو صرف ماہرینِ تعلیم ہی سمجھ سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت آزاد کشمیر کی تو بات کرنا ہی فضول ہے. یہاں کے حکمرانوں کی اوقات ہی کیا ہے کہ اپنی پالیسی مرتب کریں۔
پاکستان میں جو لوگ تعلیمی پالیسی ترتیب دے رہے ہیں مجھے لگتا ہے کہ ان کے مد نظر یورپ کے بچے ہیں نہ کہ پاکستان اور کشمیر کے…. بھئی پالیسیاں عوام کے شعور، سماجی رویوں، تعلیمی معیار، تاریخی پس منظر اور مفلوج تدریسی انتظامات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی جاتی ہیں. پہلے تو آپ پیپرز کو ہی دیکھ لیجیے. کہا گیا کہ بچہ صرف 3 مضامین کا امتحان دے گا…. اب کوئی بتائے کہ تین (اختیاری) مضامین کا امتحان دیتے ہوئے کرؤنا نہیں پھیلے گا باقی تین (لازمی) مضامین کے دوران کرؤنا کی فوج اٹیک کر دے گی؟
عجیب منطق ہے. اب اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ 70 فی صد سے زائد بچے تو لازمی مضامین (یعنی آرٹس کے مضامین) میں اچھے نمبر لیتے ہیں اور سائنس کو بس پاس کرنے کی ہی محنت کر سکتے ہیں. ان بچوں کے مستقبل کا سوچے سمجھے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کیسے لیا جا سکتا تھا؟ اب اختیاری مضامین میں حاصل کردہ نمبرز کی بنیاد پر لازمی مضامین کے نمبرز لگائے جائیں گے تو اس سے ناصرف اس educational process کا فطری توازن خراب ہو گا بلکہ میری طرح کے طلبہ جو اردو انگریزی کے مضامین میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان مضامین سے اپنی ڈویژن بہتر کرتے ہیں، ان کی تو سپلیاں ہی سپلیاں لگ جائیں گی. اب جب حکومت کے پاس رزلٹ آنا شروع ہوئے اور بڑے پیمانے پر بچوں کے فیل ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی تو شرمندگی کے مارے ایک اور حماقت کر بیٹھے وہ یہ کہ فیل ہو جانے والے طلبہ کو پاس کر دیا….. اف اتنا بڑا تعلیمی مذاق!
یہ تعلیم کے ساتھ کھلواڑ ہے…. آپ یہ کیسے کر سکتے ہیں؟ مجھے 15 سالہ تجربہ ہے پڑھانے کا مجھے ادراک ہے کہ فیل ہونے والے طلبہ کو پاس کرنے سے کیا نقصانات ہوتے ہیں. ان میں سے بہت سے طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو نمبر گیمز کی وجہ سے جان بوجھ کر ایک دو پیپر چھوڑ دیتے ہیں تا کہ سپلی میں اور اچھی طرح محنت کر کے نمبر حاصل کیے جائیں… کچھ طلبہ ریپیٹرز ہیں اور دو تین سالوں سے اپنی ایف ایس سی کے نمبرز میں اضافے کی محنت کر رہے ہیں، اُن کا ایک اور سال ضائع کر دیا گیا…. یہ حکومت تاریخی بدنامی مول لے رہی ہے. ان اقدامات کو دہائیوں تک تبرہ اور عبرت کے طور پر یاد رکھا جائے گا….
رہی سہی کسر Entry Test میں پوری کر دی. حکومت نے تہیہ کر رکھا ہے کہ اپنے منہ پر کالک ملنے کا کوئی موقع جانے نہیں دینا. اینٹری ٹیسٹ ایک حساس نوعیت کا امتحان ہوتا ہے جس کے ذریعے آپ طلبہ کو میڈیکل انجینئرنگ کالجز میں داخلہ دیتے ہیں. اور یہ داخلہ میرٹ کے مطابق دیا جاتا ہے. یہ میرٹ مساوی امتحانی طریقہ کار سے ہی ممکن ہے. پہلے ایک ہی دن سب بچوں کے پیپرز ہو جاتے تھے یوں ایک ہی پیپر سب کو ملتا تھا، آسان آئے یا مشکل کسی بچے کے ساتھ زیادتی نہیں ہو سکتی تھی. اس بار ان عجائب گھر کے مکینوں نے 30 دن 30 مختلف پیپرز رکھ دیے. ہر دن نیا پیپر آتا ہے. کسی دن بہت مشکل پیپر آ جاتا ہے
جس میں appear ہونے والے طلبہ بمشکل پاسنگ مارکس ہی لے سکتے ہیں اور روتے ہوئے اپنی محنت اور وقت کے ضیاع کا ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں. کسی دن بہت آسان پیپر آ جاتا ہے اور اس ٹیسٹ میں appear ہونے والے طلبہ خوشی خوشی گھر واپس آتے ہیں. اب کوئی یہ بتائے کہ ایک ہی سیٹ کے لیے لڑنے والے طلبہ کو منتخب کرنے کا یہ دوہرا نظام دنیا کے کسی سنجیدہ معاشرے میں سراہنے کے قابل ہے؟ مزید سنیے! PMC (پاکستان میڈیکل کاؤنسل) نے جو سیلیبس بنایا (خاص کر انگریزی کا)، پیپرز بالکل اس سے بر عکس لیے جا رہے ہیں….
بچوں سے 2 ہزار کے بجائے 6000، 8000 اور 12000 فی لی گئی یوں کروڑوں روپے کمائے گئے اور ان سے چند TABS خرید کر وہی TABS ہر پیپر میں چلائے جاتے ہیں…..(ہمیں کئی بچوں کی شکایات موصول ہوئی ہیں کہ tab ٹھیک طرح استعمال نہیں کیا جا سکا. بچے اس کے trained نہیں تھے. دیہات سے آئے بچے بچیاں scrolling and filling کے پیچیدہ نظام سے ناواقف تھے. Cursor کہیں اور لگانا چاہتے، click کہیں اور ہو جاتا…) اس کام کے لیے ایک نجی ادارے سے معاونت کی گئی ہے جب کہ یہ کام PMC کو خود کرنا چاہیے….
جن طلبہ کا پیپر 15 تاریخ کے بعد ہونا ہے ان کو تو کم از کم Pattern وغیرہ کا علم ہو گیا…. اور پوچھے جانے والے سوالات کی نوعیت اور اہم موضوعات جن سے سوالات پوچھے جا رہے ہیں، ان سب سے واقفیت ہو گئی. اب جن بچوں کے پیپر پہلے لیے گئے ان کے نزدیک تو سارا معاملہ اندھیرے میں رکھا گیا ان کا کیا قصور؟ غرض یہ ایک مذاق ہے جو ہو رہا ہے. حکومت ایک پاگل گھوڑے کی طرح تعلیمی میدان کو اصطبل سمجھ کر اچھل کود کر رہی ہے. بچوں کے مستقبل کو کیمسٹری کی لیب سمجھ کر تجرباتی دھماکے کیے جا رہی ہے. لاکھوں زندگیوں کو لاوارث لاش کی طرح treat کیا جا رہا ہے. ہمارے بچوں کی ننھی امیدوں پر تیزاب پھینک کر آگ لگائی جا رہی ہے…. غرض سخت سے سخت الفاظ کا استعمال کرنا چاہ رہا ہوں مگر قلم کی حرمت اور درس و تدریس سے وابستگی آڑے آ رہی ہے. ویسے تعلیم کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا دیکھ کر یہ درس و تدریس کم اور درس و تذلیل زیادہ دکھائی دے رہی ہے…….