5 اگست کے بعد کشمیرمیں کیابدلا؟

تحریر: جسٹس (ر) منظور حسین گیلانی

ہندوستانی آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کے نفاذ کے دن سے ہی قوم پرست ہندو جماعتوں کے نشانے پہ رہے۔ 5 اگست کے بعد کشمیرکی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے نتیجے میں یہ جماعتیں اپنے عزم میں کامیاب ہو گئیں۔ کشمیر کی  سیکولر حکو متی جماعتیں بھی ان کو مرحلہ وار ختم یا بے اثر کرنے کی دوڑ میں شامل رہیں۔ چنانچہ 5 اگست 2019 تک سیکولر حکومتوں کے غلبے کے باوجود ہندوستانی آئین کی دفعات395 ‘ 97 مرکزی اختیارات ‘ اور 47 مشترکہ اختیارات کی لسٹ میں سے بالترتیب 260 دفعات اور 95 مرکزی اختیارات اور26 مشترکہ اختیارات کے علاوہ 47 آئینی احکامات کا ریاست پر نفاذ ہو چکے تھے۔ سیکولر ہندوستانی وزیر داخلہ گلزاری لال نندہ نے 4 دسمبر سال 1964 میں پارلیمنٹ کے اندر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ، “دفعہ 370 ہی وہ ٹنل ہے جس کے زریعہ ہندوستانی آئین کو ریاست کشمیر میں داخل اورریاست کے آئین کو واپس لیا جا سکتا ہے۔ یہ خالی خول ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائےگا۔” اس پلان کو پچپن سال بعد ہندو قوم پرست جماعت  بی جے پی نے ان ہی الفاظ کی روح کے مطابق دفعہ 370 کے تحت ہندوستانی آئین کو کشمیر  میں داخل اورریاستی آئین کو واپس لیا ہندوستانی سیکولر اور غیر سیکولر سیاسی جماعتیں اس حدتک متفق رہیں اوراب تک ہیں۔

بی جے پی  کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے 5 اگست 2019 کو پارلیمنٹ میں کشمیر سے متعلق خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی بنیاد، اس بے بنیاد دلیل پر رکھی کہ، “دفعہ 370 ریاست کی پسماندگی، کرپشن، جمہوریت کی ناکامی اور دہشت گردی کی وجہ ہے۔“ جائزہ لینے کی بات یہ ہے کہ کیا اس عمل سے ریاست میں جمہوری عمل بحال، اس کی پسماندگی اور اس میں سے دہشت گردی ختم ہو گئی اور تعمیر و ترقی کا دور دورہ شروع ہو گیا۔؟؟؟

کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق اگست 2019 کے بعد اگست 2021 تک کشمیر کے کاروبار میں ستر ہزار کروڑ کا نقصان ہوا، بے روزگاری اکیس فیصد سے بڑھ گئی ہے۔ نوجوان بے روزگاروں کی تعداد چھ لاکھ تک پہنچ گئی، مقامی کاروبار سے منسلک پانچ لاکھ لوگ بے روز گا ہوگئے ہیں۔ جبکہ اس عرصہ کے دوران 410 کشمیری مرد وزن مارے گئے، 2046 پر تشدد، 14997 کو گرفتار، 115 عورتوں کی اجتماعی آبرو ریزی اور عصمت دری، 1030 جائیدادوں کو تلف کیا گیا۔ ہندوستانی اخباروں کی رپورٹوں کے مطابق اگست 2019 کے عمل سے پہلے تین سالوں میں تشدد میں سالانہ 150 لوگ مارے جاتے رہے جبکہ اس کے بعد یہ تعداد سالانہ 250 تک پہنچ گئی۔ صرف گزشتہ ایک ماہ کے اندر پر تشدد واقعات میں 28 لوگ مارے گئے جن میں سے تین غیر مسلم بھی تھے، ان کی تفتیش کے لئے نو سو سے زیادہ لوگوں کو زیر حراست لیا گیا۔ گذشتہ ہفتہ مرکزی وزیر داخلہ کے کشمیر دورہ پر سات سو سے زیادہ لوگوں کو نظر بند کیا گیا۔ وادی کشمیر میں امیت شاہ کوئی پبلک ریلی نہیں کراسکا، جموں میں بی جے پی کی ریلی سے خطاب کرکے جموں اور کشمیر کے درمیان نفرت اور دوری کو اور گہرا کیا۔ اب ہندوستان کی اپنی ایجنسیوں کی وجہ سے تشدد کے واقعات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ مزدوری اور ملازمت کی تلاش میں آنے والےغیرریاستی باشندوں کو فوجی کیمپوں میں رکھا جارہا ہے۔ سال 1989 سے چلنے والی مزاحمتی تحریک میں بھی ایسے خوف کی حالت نہیں تھی اور ہر آسودہ حال کشمیری گھر میں ہندوستانی بالخصوص بہاری مرد یا عورت ملازم تھے۔ کاریگر اور مزدور تو تھے ہی بہاری یا دیگر صوبوں کے۔

پانچ اگست 2019 کے عمل سے ریاست بھر کی مسلمانوں کو تعصب کا نشانہ بنایا گیا۔ حریت کانفرنس کے لیڈروں اور ورکرز پر تو بی جے پی کی حکومت بنے کے ساتھ ہی مرکزی اداروں نے مقدمات بنا کے ریاست سے باہر نظر بند کرنا شروع کردیا تھا۔ اس کے بعد ہندوستان نواز کشمیری لیڈروں اور ورکرز کو ہزاروں کی تعداد میں گرفتار، نظر بند اور مقدمات میں جھکڑ دیا۔ حتی کہ سابق وزرائے اعلی اور ہندوستان کو کشمیر میں لانے والے شیخ خاندان اور محبوبہ مفتی اور ان کے وزیروں، کانگرس اور کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے ریاستی مسلمان لیڈروں کو حراست میں لیکر ہندوستان کی دور دراز جیلوں میں پہنچا دیا۔ اس سے ہندوستان نواز کشمیریوں کی بھی ہندوستان کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اور عام لوگوں میں تو اس سے بھی زیادہ ہوئی۔ اب لوگ بے خوف ہوگئے ہیں۔ حالیہ ٹی 20 میچ میں ہندوستان کے خلاف پاکستان کی جیت نے تو اس میں نئی روح پھو نک دی۔ نہ صرف کشمیر میں بلکہ ہندوستان بھر میں کشمیریوں اور ہندوستانی سنی مسلمانوں نے دل کھول کے پاکستان زندہ باد کہا، جو فی الواقع ہندوستان کے خلاف نفرت کا اظہار ہے۔ کشمیر اور ہندوستان بھر میں پڑھنے والے طلباء اور کاروباری لوگوں پر اس جشن کی پاداش میں تشدد کیا گیا اور غداری کے مقدمات بنائے گئے۔ اگست 2019 کے عمل کے ہی فوری بعد ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف تشدد شروع کیا گیا کہ وہ کہیں کشمیریوں کی حمایت نہ کریں۔ اس عمل سے نہ دہشت گردی میں کوئی فرق نہیں پڑا اور نہ ہی کشمیریوں کے جذبہ آزادی کچلا جا سکا۔ بلکہ ہندوستانی مسلمان بھی بیدار ہوگئے۔ اس عمل سے ہندوستان نے کیا بدلا اور کیا پایا ؟

جہاں تک نام نہاد جمہوریت اور جمئوری آزادیو کا تعلق ہے اس وقت بھی کشمیر میں اسمبلی اور منتخب حکومت نہیں اور گذشتہ تیس سال سے سنگین ترین قوانین اس وقت بھی نافذ ہیں۔ 2019 کی واردات کے بعد کشمیر میں جلسے جلوس، عوامی مذہبی یا سیاسی اجتماع، حتی کے گھر والوں اور عزیز و اقارب کو جنازے میں بھی حکومت شرکت نہیں کرنے دیتی۔ سید علی گیلانی کا جنازہ اسکی ایک گھوڑے چڑھی مثال ہے۔ پانچ اگست کی واردات کے بعد کرفیو، ٹیلیفون اورانٹرنیٹ پہلے تو بند اور اب صرف 2 جی  کسپیٹی سے اس پر بھی بھی مانیٹرنگ، تشدد اور فوج کے ایکشن کی رپورٹنگ کی بھی آزادی نہیں۔ کشمیر کی مقامی ہندوستان نواز مگر مسلم غلبہ کی جماعتوں جن کی قیادت کے خلاف ہندوستان نے الزامات کے پہاڑ کھڑے کر کے کہا تھا ہم نے“ عبدلوں اور مفتیوں“ کو ختم کردیا ہے نے ہی 2020 میں ہونے والے ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ بورڈ کے الیکشن میں 110 جبکہ بی جے پی نے محض 70 نشستیں لیں وہ بھی جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں سے جس کے خوف کی وجہ سے اب اسمبلی کے انتخاب کے لئے نئی حلقہ بندیاں کی جارہی ہیں تاکہ مسلم حلقوں کو تقسم کر کے ان میں ہندؤں امیدواروں کے جیتنے کے اسباب بنائے جائیں تاکہ مسلم کشمیر پر جموں کے ہندؤں کی حکومت بنائی جائے۔

 گذشتہ دو سالوں میں کشمیر میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا نہ ہی 2019 کے عمل کے باوجود سوائے دو بیعناموں کے کسی غیر ریاستی باشندے نے کشمیر میں زمین خریدی اور نہ ہی کشمیر پنڈت واپس گئے جن کی سازش سے اور جن کی خاطر ہندوستان نے یہ رسوائی جھیلی۔ اس عمل کا مقصد کشمیر کا خصو صی مقام ختم کرکے دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ ختم ہو گیا ہے اور اب جو کچھ ہورہا ہے یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے یا پاکستان کرا رہا ہے لیکن یہ یخ بستہ ایشو پچاس سال بعد سلامتی کونسل کی خصوصی توجہ کا باعث بنا۔ اس پر دو اجلاس ہوئے اور سلامتی کونسل نے بگڑتی ہوئ صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا، اس کی انسانی حقوق کی کمیٹی اور دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا۔ امریکہ کے “ بین الاقوامی کمیشن برائے مذہبی آزادی “  نے کشمیر میں مسلمانوں کی مذہبی آزادیوں پر پابندی کی شدید مذمت کرتے ہوئے ہندوستان پر پابندیاں لگانے کا بھی مطالبہ کیا۔ اسی تنظیم نے گجرات کے فسادات کے مودی کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کرائی تھی۔ اس طرح یہ مسئلہ پہلے سے زیادہ زور پکڑ گیا حتی کہ اس کے بعد چین نے لداخ پر کھلم کھلا دعویٰ کیا جہاں اب ان دو ملکوں کی فوجیں آنکھوں میں آنکھیں ڈالی کھڑی ہیں۔

اگست 2019 کے عمل نے ریاست کو دوبارہ اس پوزیشن میں پہنچا دیا جہاں تیس سال پہلے تھی۔ انتظامی مشینری مفلوج، کشمیر فوج کے حوالے اور جمہوری نظام کی بساط لپیٹی گئی تھی۔ اگر اس عمل سے کشمیر کے لوگ مطمئن، جمہوری نظام اور مذہبی ھم آھنگی بحال، ترقیاتی کاموں کا جال اور روز گار وافر ہوگیا ہوتا، کشمیر کے قدیمی با شندے، پنڈت واپس اپنے گھروں میں آگئے ہوتے، دس لاکھ فوج شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے واپس بلائی گئی ہوتی، صبح شام سویلین اور فوجیوں کی لا شیں اٹھنا بند ہوگئی ہو تیں، کشمیر کی رونقیں سیاحوں کی آمد، بازاروں، ہو ٹلوں کی رنگینی کا باعث بنے ہوتے، سکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں چین کی بانسری بج رہی ہوتی، تو مجھ جیسا متشدد پاکستانی بھی واپس اپنے گاؤں چلا جاتا۔

فرق صرف یہ پڑا ہے کشمیر براہ راست دہلی کی آر ایس ایس کی حکومت کے کنٹرول میں چلا گیا ہے، اس کی بیوروکریسی نوے فیصد غیر ریاستی ہندوں پر مشتمل ہو گئی ہے، تمام سرکاری اور کاروباری دفاتر پر زبر دستی ہندوستانی پرچم لہرایا گیا ہے، اردو اور انگریزی کے بجائے ہندی سرکاری زبان قرار دی گئ ہے، سکولوں میں ہندوستانی ترانہ پڑھنا لازمی ہوگیا ہے، گاوں گاوں فوجی چھاونیوں میں مندر بناکر اجنبی ماحول پیدا کیا گیا ہے، سارے سرکاری، نیم سرکاری، مرکزی دفاتر حتی کہ سنگ میل پر بھی اردو کے بجائے ہندی کند کی گئی ہے مقامی ہندوستان نواز اور آزادی پسند لیڈروں کو ایک لاٹھی سے ہانکا جارہا ہے کیونکہ سب مسلمان ہیں، مذہبی آزادیاں اور مقامات پر آئے دن پابندیاں لگی رہتی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر سوائے جمہوری آزادیوں کے کشمیر کو بنارس اور وارا نسی جیسا بنا دیا گیا ہے۔ اپنے ملک میں ہی لوگ اجنبی ماحول میں دھکیل دئے گئے ہیں۔ ہندو بیوروکریسی اور فوج کے زریعہ ہندوستانی ہندو تہذیب کو زبردستی مسلط کر کے مقامی مسلمانوں کو خوف زدہ کیا جارہا ہے کہ ان کی تہذیب اورنئے حالات کو قبول کریں تاکہ ہندوستان کے لئے آبادی کا تناسب بدلنا آسان ہو جائے۔

 بی جے پی بلکہ پوری ہندوستانی سیاسی جماعتوں کا کشمیر کی خصوصی حیثت ختم کر کے مسئلے کو ختم کرنے کا آخری داو بھی ختم ہو گیا۔ کشمیر کی ہندوستان نواز جماعتوں نے بھی اس عمل کو تسلیم نہیں کیا، بی جے پی اپنا یونٹ قائم نہیں کر سکی، جو مقامی لوگ “ اپنی جماعت “ کے نام سے بنوائی تھی وہ تحلیل اور اب نابود ہوگئی ہے۔ سب کا بہ یک زبان یہ مطالبہ ہے کہ اگست 2019 کے اقدامات واپس، ریاست کی اکائی کو بحال کر کے اسمبلی کے انتخابات کرائے جائیں۔ یوں توپوری کشمیری قوم آزادی پسند ہے، لیکن تحریک حریت سے تعلق رکھنے والی جماعتیں تو یکسر اس کی مخالف، کشمیر سے ہندوستانی فوجیں نکالنے اور استصواب رائے کرانے کا مطالبے پر قائم ہیں۔

اس موڑ پر پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کشمیریوں اور ہندوستانی مسلمانوں کی مدد کے لئے سامنے آئے جس طرح امریکہ 1891 میں یہودیوں کی مدد کے لئے ماسکو میں اور بر طانیہ اور فرانس 1909 میں موراکو میں عیسائیوں کی مدد کے لئے سامنے آئے تھے۔ ویٹی کن سٹی کے سیاسی اورمذہبی عیسائی رہنما، پوپ جان پال کی مداخلت سے انڈو نیشیا کے مقبوضہ مشرقی تیمور کو 1999 میں ریفرنڈم کراکر آزاد کرا لیا جس پر انڈو نیشیا نے 1975 میں قبضہ کرکے وہاں کے باشندوں پر ہندوستان کےکشمیریوں کی طرز پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے۔ افسوس ہے کہ “حر مین شریفین” کے متولی کشمیری مسلمانوں پر ظلم ستم کرنے والے بھارت کا طرفدار ہے جبکہ یہ پوپ جان پال والا کردار ادا کرسکتے تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے بعد عیسائی نشانے پر ہیں، اس کے باوجود نریندر مودی پوپ کو ملنےاورہندوستان آنے کی دعوت دینے کے لئے ویٹی کن پہنچ گئے۔ میں کئی سال سے لکھ رہا ہوں کشمیر اور ہندوستانی مسلمانوں کے سلسلے میں پوپ کو ملنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کشمیر کا دعویداراور فریق بھی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں اورپاکستانی غیرمسلموں کے حوالے سےاپریل 1950 کا اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان لیاقت، نہرو معاہدہ بھی ہے۔ پاکستان کو انسانی حقوق کے علاوہ اس معائدے کی تکمیل کے لئے دنیا کو جھنجھوڑ کے رکھ دینا چاھیے تھا۔ پاکستان کو یہ بات سمجھنی چاھیے کہ کشمیری مسلمان پاکستان نوازی اور پاکستان خواہی کی وجہ سے مار کھا رہے ہیں، ورنہ ان پہ اتنے ظلم نہ ہوتے جیسا کہ ہندوستان کے شمال مشرقی باغیوں پر نہیں ہو رہے۔ بر صغیر کے ان حالات کا ا دراک کرکے پاکستان کو بر صغیر کی لیڈرشپ اور اونرشپ سنبھالنے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاھیے، اس میں پاکستان، بر صغیر اور کشمیر کے مسلمانوں کا مفاد مضمر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں