نور مقدم قتل کیس : ’جج صاحب میرا راضی نامہ کروا دیں‘

نور مقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی جانب سے ایک بار پھر عدالتی کارروائی میں دخل اندازی کی کوشش کی گئی۔
بدھ کو اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں ملزمان کو پیش کیا گیا۔
عدالتی کارروائی کا باقاعدہ آغاز ہوا تو استغاثہ نے فرانزک آفیسر محمد عمران کا بطور گواہ بیان ریکارڈ کروانا شروع کیا۔
اس دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’جناب عطاء ربانی، کیا میں آپ کے قریب آ سکتا ہوں، مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا

اس کے بعد ملزم کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد دوبارہ مخاطب ہوا اور کہا کہ ’جج عطا ربانی، میرا راضی نامہ کروا دیں، میں عدالت کے قریب آ کر کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔‘
اس دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی بھی عدالت میں موجود تھیں۔
عصمت آدم جی نے گذشتہ سماعت پر عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ ملزم کی جانب سے عدالتی کارروائی میں دخل اندازی نہیں کی جائے گی۔
جج عطا ربانی کی جانب سے جب کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا تو ملزم نے ایک بار پھر جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’جناب عطاء ربانی کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں۔‘
اس پر جج عطا ربانی نے ملزمان کے وکلاء سے استفسار کیا ’کیا ملزم کی کمرہ عدالت میں موجودگی ضروری ہے؟ اس کی حاضری لگوا کر بھجوا دیں۔‘
ملزم ظاہر جعفر کو جج کے حکم پر پولیس اہلکاروں نے بخشی خانے منتقل کر دیا۔

جائے وقوعہ سے کیا کیا برآمد ہوا؟
سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ محمد عمران فرانزک آفیسر کا بیان قلمبند کیا گیا جس میں انہوں نے کرائم سین سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا۔ محمد عمران نے عدالت کو بتایا کہ ’کمرے کی کھڑکی والی سائیڈ پر مقتولہ کا سر پڑا ہوا تھا جو کہ دھڑ سے علیحدہ تھا جبکہ کھڑی کے شیلف پر چاقو پڑا ہوا تھا جو کہ قبضے میں لیا گیا۔‘
فرانزک آفیسر نے بتایا کہ کمرے کے ایک کونے پر میز موجود تھی جس پر پستول میگزین کے ساتھ پڑی ہوئی تھی جبکہ ایک اضافی میگزین بھی کمرے سے برآمد کی گئی۔ میز کے نیچے ٹوکری سے چار سیگرٹس کے فلٹرز کو بھی پارسل بنا کر تفتیشی کے حوالے کیے گئے۔ اس کے علاوہ کمرے سے ایک آہنی مکا بھی برآمد ہوا جو کہ سیل کر کے تفتیشی کو دیا گیا۔
جرح کے دوران محمد عمران نے بتایا کہ 20 جولائی کو رات 9 بج کر 40 منٹ پر ایس پی دفتر سے اطلاع ملی جس کے بعد میں 10 بجے اپنے دفتر پہنچ گیا جبکہ رات 10:30 بجے کرائم سین پر پہنچے اور 8 سے 10 پولیس اہل کار افسران کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ جن میں ایس ایس پی عطاء الرحمن، ایس پی اور خاتون اے ایس پی شامل تھے۔
محمد عمران نے بتایا کہ جائے وقوعہ پر 3 گھنٹے تک موجود رہے اور تمام اشیاء اکٹھی کر کے تفتیشی کے حوالے کی، چاقو کے فنگر پرنٹس لیے گئے جبکہ پسٹل اور آہنی مکے کے فنگر پرنٹس نہیں لیے گئے۔
استغاثے کے ایک اور گواہ سکندر حیات کا بیان قلمبند کیا گیا جس میں جائے وقوعہ سے برآمد ہونے والا مال مقدمہ عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ عدالت میں جائے وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی ڈی وی آر بھی عدالت میں پیش کر دی گئی۔
نور مقدم قتل کیس میں مجموعی طور پر 9 گواہان پر جرح مکمل ہو چکی ہے، عدالت نے کیس کی مزید سماعت 17 نومبر تک ملتوی کر دی۔ آئندہ سماعت پر استغاثہ کے مزید گواہان ہیڈ کانسٹیبل جابر، کمپیوٹر آپریٹر مدثر، اے ایس آئی دوست محمد اور ڈاکٹر شازیہ کو طلب کر لیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں