چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پورے پاکستان میں کنٹونمنٹ بورڈ کی اراضی پر یہ سلسلہ جاری ہے۔ سی ایس ڈی کو بھی اب اوپن کمرشل ڈپارٹمنٹل اسٹوربنادیا گیا ہے۔ گِزری روڈ پر راتوں رات بلڈنگ کھڑی کردی گئی۔ ہم ابھی سوکر نہیں اٹھے تھے کہ انہوں نے بلڈنگ کھڑی کردی۔
جسٹس گلزار نے سیکرٹری دفاع سے سوال کیا کہ ہمیں بتائیں آپ کا آگے کا پلان کیا ہے؟ اس پر سیکرٹری دفاع نے بتایا کہ تینوں سروسزکی کمیٹی بنادی ہے جوغیرقانونی عمارتوں کی نشاندہی کرےگی۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگریہ غیرقانونی عمارتیں رہیں گی تو باقیوں کےخلاف کیا ایکشن لیں گے؟ یہ فیصلہ ایک روایت بن جائےگا۔ کنٹونمنٹ زمین دفاعی مقاصد پورا ہونے پرحکومت کو واپس کرنا ہوتی ہے۔
حکومت زمین انہیں واپس کرے گی جن سے ایکوائر کی گئی ہوں۔ اعلیٰ فوجی افسران کو گھر دینا دفاعی مقاصد میں نہیں آتا۔ فوج ریاست کی زمین پرکمرشل سرگرمیاں کیسے کرسکتی ہے؟ ریاست کی زمین کا استحصال نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کنٹونمنٹ اراضی پر کمرشل سرگرمیوں کےخلاف کیس کی سماعت میں ریمارکس دیےکہ فوج جن قوانین کا سہارا لےکرکمرشل سرگرمیاں کرتی ہے وہ غیرآئینی ہیں۔
فوج ریاست کی زمین پرکمرشل سرگرمیاں کیسے کرسکتی ہے؟ جب کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ فوج کی غیرقانونی تعمیرات کو چھوڑدیں اگر فوج کی غیرقانونی تعمیرات کو چھوڑدیا تو باقی کوکیسے گرائیں گے؟
سپریم کورٹ میں کنٹونمنٹ اراضی پر کمرشل سرگرمیوں کےخلاف کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ میاں ہلال عدالت میں پیش ہوئے اور رپورٹ پیش کی جسے عدالت نے غیر تسلی بخش قرار دیا۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سنیما، شادی ہالز، اسکول اور گھر بنانا دفاعی مقاصد ہیں؟ کراچی میں تمام غیر قانونی عمارتیں مسمار کروا رہے ہیں۔ کارسازمیں بڑی بڑی دیواریں کھڑی کرکے سروس روڈ بھی اندرکردی گئی، کنٹونمنٹ زمین کو مختلف کیٹیگریزمیں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ پرل مارکی اور گرینڈ کنونشن ہال ابھی تک برقرار ہیں۔ کالا پُل کےساتھ والی دیوار اور گرینڈ کنونشن ہال آج ہی گرائیں۔ کارساز اور راشد منہاس روڈ پراشتہارات کے لیے بڑی بڑی دیواریں بنادی ہیں۔
یہ حکومت کی زمین ہے، سنیما، پیٹرول پمپ، ہاؤسنگ سوسائٹی، شاپنگ مال اور میرج ہال دفاعی مقاصد تو نہیں، اٹارنی جنرل بتائیں وزارت دفاع کیسے اس استعمال کو دفاع تک محدود رکھے گی۔