بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے گزشتہ دنوں انسانی حقوق کے ممتاز کشمیری علمبردار خرم پرویز کو گرفتار کیا ۔ خرم کی گرفتاری محض اتفاق نہیں بلکہ اس بڑے منصوبے کا حصہ ہے، جس کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی ہر موثر آواز کو کچلا جاتاہے یا اسے غیر موثر کردیا جاتاہے۔ انہیں حراست میں لینے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی مقبوضہ کشمیر میں ریاستی مظالم کے شواہد جمع کرے اور نہ ہی ریاستی جبر کے خلاف آواز اٹھا سکے۔
خرم پرویز کون ہیں
اڑتالیس سالہ خرم پرویز کا شمار مقبوضہ کشمیر کی سرکردہ شخصیات میں ہوتاہے۔ انسانی حقوق کے شعبے میں نمایاں خدمات سرانجام دینے پر انہیں بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی سطح پراجاگر کرنے میں خرم پرویز نے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ماہرین کی ایک چھوٹی سی ٹیم کے ساتھ انہوں نے جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی (JKCCS) کے پلیٹ فارم سے ٹھوس شواہد اور تحقیق سے ثابت کیا کہ بھارتی حکام کشمیر میں سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کوششوں کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی۔ 2004 ء میں شمالی کشمیر میں انتخابات کی نگرانی کے دوران ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں وہ اپنی ٹانگ کھو بیٹھے ۔ 2016 ء میں انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 76 دنوں کے لیے جیل میں ڈالا گیا۔ اب این آئی اے نے انہیں دہشت گردی کی فنڈنگ کیس میں پابند سلاسل کردیا۔ اس من گھڑت کہانی کامقصد انہیں انسانی حقوق کی پامالیوں پر کام سے روکنے کے سوا کچھ نہیں۔
Burdened childhood…
Family members of 23 year old Irfan Ahmed Dar of Sopore mourning his extrajudicial killing after he was arrested. pic.twitter.com/CNHL6svDYA
— Khurram Parvez (@KhurramParvez) September 16, 2020
ان کی گرفتاری نے عالمی سطح پر ہلچل مچا دی۔ انسانی حقوق کے اداروں اور کارکنوں کے علاوہ، مشہور مصنف نوم چومسکی، میری لالر، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے سب ہی نے متفقہ طور پر ان کی حراست کی مذمت کی اور فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
تازہ ترین صورت حال
اگرچہ کشمیر میں بھارت کا انسانی حقوق کا ریکارڈ ہمیشہ سے مایوس کن رہا ہے لیکن گزشتہ چند ماہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پرتشدد واقعات کی تعدد اور شدت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ شہریوں کی ہلاکتوں،فوجیوں اور ٹارگٹ کلنگ میں نمایاں اضافہ ماضی کے تمام ریکارڈکو مات دے چکا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ فوجی طاقت کا بے تحاشہ استعمال کشمیر کے حوالے سے بھارت کی موجودہ حکمت عملی کا بنیادی جزو ہے۔سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے ایک حالیہ انٹرویو میں اس بات کی تصدیق کی کہ کشمیر میں وحشیانہ طاقت کا استعمال موجودہ بھارتی حکومت کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ایک اعلیٰ سرکاری عہدے دار نے انہیں بتایا کہ نئی دہلی اب کشمیریوں سے مذاکرات نہیں کرے گا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کی بحالی یا آرٹیکل 370 کے لیے سیاسی عمل شروع کرنے کا خیال اب مودی حکومت کے پیش نظر نہیں ہے۔
حال ہی میں سری نگر میں چار کشمیری شہری مارے گئے۔ دو کو اوور گراؤنڈ ورکرز قراردیا گیا ۔یہ اصطلاح ان لوگوں کے لیے گھڑی گئی ہے جنہیں حکام عسکری تنظیموں سے قریبی تعلق رکھنے والا قراردیتے ہیں۔ہلاک ہونے والے افراد کو پولیس نے د ور دراز کے کسی علاقے میں دفن کردیا۔ اہل خانہ نے اس الزام کی سختی سے تردید کی کہ ان افراد کا عسکریت پسندوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔
متاثرین کے اہل خانہ کا خیال تھا کہ انہیں ‘انسانی ڈھال’ کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ عوامی ردِ عمل، میڈیا کی تشہیر اور متاثرین کے خاندانوں کے احتجاج کے باوجود لاشوں کو واپس لانے اور دفنانے میں 76 گھنٹے لگ گئے۔ یہاں بھی پولیس نے قریبی لوگوں کے علاوہ کسی کو جنازے میں شامل ہونے کی جازت نہ دی۔
مبصرین کے خدشات
اس تناظر میں چند مبصرین خدشہ ظاہر کر تے ہیں کہ خرم کو بھارتی حکام کی جانب سے دہشت گردی سے متعلق جھوٹے مقدمات میں پھنساکر انہیں طویل عرصے تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے اس کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے مسلسل عالمی توجہ کی ضرورت ہے۔دراصل بھارتی حکام کا مقصد ان کی آواز کو خاموش کرنا اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کو کشمیر پر کام کرنے سے روکنا ہے۔ خیال رہے کہ کشمیر پہلے ہی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے محفوظ اور قابل رسائی نہیں ہے۔
آزاد صحافیوں یا میڈیا ہاؤسز کو سرکاری لائن اختیار کرنا پڑتی ہے۔ بصورت دیگر انہیں ریاستی عتاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زیادہ تر کشمیری شہری بھارتی قومی میڈیا پر اعتماد نہیں کرتے۔ نہ ہی اس بیانیے پر بھروسہ کرتے ہیں جو بھارتی میڈیا پیش کرتاہے۔چنانچہ مقامی میڈیا کو اپنے ڈہب پر لانے کے لیے اس کا مکو ٹھپ دیاگیا ہے۔ 5 اگست کے بعد مقبوضہ کشمیر کے میڈیا پرنئی دہلی کا مکمل کنٹرول ہے۔
بھارتی حکام اپنے قومی مفاد کے مطابق عوامی تاثرات اور بیانیہ کو ڈھالنے کے لیے مقامی میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔ صرف ان میڈیا ہاؤسز کو زندہ رہنے کی اجازت ہے جن کا مواد اور بیانیہ بھارتی حکام کے طے شدہ خدوخال سے مطابقت رکھتا ہے۔ ریڈ لائنز کا خیال نہ رکھنے والے صحافیوں اور ایڈیٹرز کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ
مقبوضہ کشمیر کے اندر بڑھتی ہوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور کشیدگی بی جے پی کے سیاسی مفاد میں ہے اور نظریاتی ایجنڈے کو بھی تقویت پہنچاتی ہے۔ اس لیے وہ ایسی راہ اپنانے کو تیار نہیں،جس سے معصوم جانیں بچیں اور خطے میں امن و خوشحالی آئے۔ ہندو مسلم تنازعہ کو زندہ رکھنے میں ہی اس کی سیاسی زندگی ہے تاکہ اکثریتی ہندو آبادی بی جے پی حکومت کی حمایت جاری رکھے۔
خاص طور پر آنے والے ریاستی انتخابات میں بی جے پی مسلمانوں اور خاص طور پر کشمیریوں کے خلاف جذبات کو اور بھی بھڑکا ئے گی۔خاص طور پر اتر پردیش کا الیکشن جیتنا بی جے پی کے لیے بہت اہم ہے۔
عالم یہ ہے کہ چند روز قبل مرکزی وزیر جتیندر سنگھ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا :جس قیادت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کی جرأت کی وہ پاکستان کے غیر قانونی قبضے سے جموں وکشمیر کو (آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان) کو واپس لینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔اس طرح کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کشمیریوں کو مزید تشدد کا نشانہ بنایا جائے ۔
ارشاد محمود راولاکوٹ/اسلام آباد میں مقیم معروف کشمیری صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے سیکرٹری اطلاعات اور جموں و کشمیر لبریشن سیل کے ڈائریکٹر جنرل بھی ہیں۔