تحریر: افتخار گیلانی
آخر وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا کشمیر کی مسلم آبادی کو ہمیشہ کیلئے سیاسی طور پر بے وزن کرنے کیلئے بھارت کی طرف سے قائم جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں حد بندی کمیشن نے بالآ خر اپنی رپورٹ میں ریاستی اسمبلی کیلئے ہندو اکثریتی علاقہ جموں سے نشستیں بڑھانے سے متعلق اپنی ڈرافٹ سفارشات پیش کی ہیں۔
5اگست 2019 کو جب ریاست کو تحلیل کرکے اسکو دو مرکزی تحویل والے علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا، تو اسی وقت بتایا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کی نئی اسمبلی میں کل 114نشستیں ہونگی۔ جس میں 90نشستوں پر انتخابات ہونگے۔ بقیہ 24نشستیں آزاد کشمیر یا پاکستان کے زیر انتظام خطے کیلئے مخصوص ہونگی۔
حد بندی کمیشن: کشمیر کے سیاسی تابوت میں آخری کیل https://t.co/e9IyN1JTFM via @TheWireUrdu
— Iftikhar Gilani (@iftikhargilani) December 30, 2021
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جموں کیلئے چھ سیٹیں بڑھانے اور کشمیر کیلئے محض ایک نشست بڑھانے کی سفارش کی ہے۔ یعنی ا ب نئی اسمبلی میں وادی کشمیرکی 47اور جموں کی 43سیٹیںہونگی۔ان نشستوں میں 16 نچلی ذات کے ہندوئوں یعنی دلتوں یا شیڈولڈ کاسٹ اور قبائلیوں کیلئے مخصوص ہونگی۔
اس سے قبل کشمیر کے پاس 46اور جموں کے پاس 37سیٹیں تھیں۔ وادی کشمیر کی سیٹیں اسلئے زیادہ تھیں کیونکہ 2011کی سرکاری مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 68لاکھ تھی۔ جبکہ جموں خطے کی آبادی 53لاکھ ریکارڈ کی گئی تھی۔
یعنی کشمیر کی آبادی جموں سے 13لاکھ زیادہ تھی۔ جس کی وجہ سے اسمبلی میں اس کے پاس جموں کے مقابلے نو سیٹیں زیادہ تھیں۔ جبکہ اصولاً یہ تفاوت 12سیٹوں کا ہونا چاہئے تھا۔ کیونکہ کشمیر میں اوسطاً ایک لاکھ 50ہزار نفوس پر ایک اسمبلی حلقہ ترتیب دیا گیا تھا۔
جبکہ جمو ں کے اسمبلی حلقوں کی اوسطاً آبادی ایک لاکھ 45ہزار رکھی گئی تھی۔ یہ اب تقریباً طے ہوگیا ہے کہ کمیشن نے ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی ایما پر ہی حد بندی ترتیب دی ہے۔ تاکہ مسلم آبادی کو سیاسی طور پر بے وزن کیا جائے اور 68.31فیصد مسلم خطے پر ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کرایا جائے۔
ویسے بھی پچھلے دو سو سالوں میں یعنی 1819میں سکھوں کی فوج کشی کے بعد 1948سے 2018تک ہی یعنی بس 70سالوں میں مسلمان لیڈران حکومتی مسندوں پر براجماںہوئے ہیں۔ شاید محبوبہ مفتی اس خطے کے آخری مسلم وزیر اعلیٰ کے بطور تاریخ میں درج ہوجائیگی۔
وزیر اعلیٰ اور اسمبلی کی صورت میں یہ واحد ادارے باقی تھے، جہاں کسی صورت میں تعداد کے بل بوتے پر کشمیری مسلمانوں کو رسائی حاصل تھی۔
اگر مقامی بیوروکریسی کاجائزہ لیا جائے، تو فی الوقت 24سیکرٹریوں میں بس پانچ ہی مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ 58 اعلیٰ سول سروس افسران میں صرف 12 مسلمان ہیں۔ یعنی 68فیصد آبادی کا تناسب اعلیٰ افسران میں محض 17.4فیصد ہے۔ دوسرے درجہ کے افسران میں کل 523میں 220ہی مسلمان ہیں۔ یعنی تناسب 42.06فیصد ہے۔
اسی طرح 66اعلیٰ پولیس افسران میں بس سات مسلمان ہیں۔ دوسرے درجہ کے 248پولیس افسران میں 108ہی مسلمان ہیں۔ اس خطے کے 20اضلاع میں بس چھ میں یعنی بانڈی پورہ، بڈگام، کلگام، پلوامہ، رام بن اور سرینگر میں ہی ڈپٹی کمشنر یا ضلعی مجسٹریٹ مسلمان ہیں۔ کمیشن نے اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی میں آبادی کے بجائے رقبہ کو معیار بنایا ہے۔
اس کا استدلال ہے کہ چونکہ جموں کا رقبہ26,293مربع کلومیٹر ، کشمیر کے رقبہ 15,940مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے ، اسلئے اس کی سیٹیں بڑھائی گئیں ہیں۔ اگر یہ معیار واقعی افادیت اور معتبریت رکھتا ہے، تو اسکو پورے بھارت میں بھی نافذ کردینا چاہئے۔
کمیشن کے اس استدلال کے مطابق آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی 543 رکنی پارلیمنٹ میں 80نشستیں یا تو پھر کم ہونی چاہئے یا دیگر صوبوں پر بھی رقبہ کا فارمولہ لاگو کرکے رقبہ کے لحاظ سے بھارت کے سب سے بڑے صوبہ راجستھان کو پارلیمنٹ میں 113نشستیں ملنی چاہئے، جبکہ فی الوقت اس کے پاس بس 25سیٹیں ہیں۔
مدھیہ پردیش کو 102اور مہاراشٹرا کی پارلیمنٹ میں 101سیٹیں ہونی چاہئے۔ جبکہ ان کی سیٹیوں کی تعداد بالترتیب 29اور 48ہیں۔ اسی طرح دہلی شہر کوجس کے پاس سات پارلیمانی سیٹیں ہیں، رقبہ کے لحاظ سے ایک بھی سیٹ نہیں ملنی چاہئے۔
کشمیر کی مین اسٹریم یا بھارت نواز پارٹیوںنے پہلے تو حد بندی کمیشن کا بائیکاٹ کیا تھا، مگر جون میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ کے بعد نیشنل کانفرنس اس منصوبے میں شامل ہوگئی۔ چونکہ صرف بی جے پی اور نیشنل کانفرنس کے ہی لیڈران لوک سبھا کے اراکین ہیں، اسلئے وہ اس کمیشن کے ایسوسی ایٹ اراکین بھی تھے۔
ان کی غیر موجودگی کی وجہ سے کمیشن کی ساکھ ہی مشکوک تھی۔ سرینگر اور جموں میں کمیشن کی طرف سے بلائے گئے اجلاسو ں میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یعنی پی ڈی پی کے بغیر دیگر جماعتوں نے بھی میمورنڈم پیش کئے۔ کمیشن نے ایسوسی ایٹ ممبران کو بتایا ہے کہ وہ اعتراضات 31دسمبر تک دائر کر سکتے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کی پہلے یہ دلیل تھی، کہ یہ کمیشن ہی غیر قانونی ہے۔
اور جس ایکٹ کے تحت اسکی تشکیل ہوئی ہے، اسکے وجود کو ہی نیشنل کانفرنس نے سپریم کورٹ میں چلینج کیا ہوا ہے، لہذا وہ کمیشن کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔ مگر جون میں دہلی میں اسکے لیڈروں کو کیا گیدڑ سنگھی سنگھائی گئی کہ انہوں نے نہ صرف اس کمیشن کو تسلیم کیا بلکہ اس کے اجلاسوں میں بطور ایسوسی ایٹ ممبر بھی حصہ لیا۔
جبکہ اسوقت اس پارٹی کا اپنا وجود بھی داوٗ پر لگا ہوا ہے، ایسے وقت بھی اسکے لیڈران مفادات کا سودا کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ اقتدار کی شدید ہوس نے کشمیر کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی نیشنل کانفرنس کو بزدل بناکر رکھ دیا تھا۔ بد قسمتی سے اس جماعت کا یہ محور بنا ہواہے کہ اقتدار کی نیلم پری سے بوس وکنا رکو کس طرح استوار کیا جائے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دہائی قبل دہلی کے کا نسٹیٹیوشن کلب میں ایک مذاکرہ کے دوران بی جے پی کے معتدل کہلانے والے لیڈر آنجہانی ارون جیٹلی نے کہا تھاکہ کشمیر کا واحد مسئلہ اسکا مسلم اکثریتی کردار ہے اور کشمیر کی ترقی میں بھی یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کیونکہ بھارت کے دیگر علاقوں کے لوگ وہاں بس نہیں سکتے ہیں۔
جس کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں ہوسکتی ہے ۔ کئی مواقع پر خود کشمیری لیڈروں نے اپنی عزت نفس کا خیال نہ کرتے ہوئے آئینی خلاف ورزیوں کے لئے راہ ہموار کی۔ دفعہ 370اور دفعہ 35 اے کی صورت میں سیاسی گرداب سے بچنے کے نام پر بس ایک نیکر بچی تھی۔
اسکو بھی اتارکر، کشمیریو ں کی عزت نیلام کرکے ان کو اب اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے اور بیگانہ کرنے کا ایک گھنائونا کھیل جاری ہے، جس میں تڑکا ڈالنے کیلئے خود کشمیر کے اپنے لیڈران بھی بازی لے رہے ہیں۔