کشمیر

کشمیر: رل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے

یہ گزشتہ صدی کی پانچویں دہائی تھی، کشمیر ہمارا اپنا وطن تھا، جھنڈا تھا دھرتی پراختیار تھا ہم اپنی سرزمین کے بہتے پانیوں سمیت تمام وسائل کے مالک تھے۔
ایک دن اچانک ہمارے پاکستانی بھائیوں کو احساس ہوا کہ لگے ہاتھوں اپنی آزادی کے ساتھ ساتھ ظالم وجابر ہندو حکمران سے کشمیری مسلمان بھائیوں کو بھی آزادی دلوائی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس عظیم جذبے کے تحت کھیتوں کھلیانوں جنگلوں پہاڑوں ہر جگہ سے ایک ہی آواز سنائی دیتی تھی۔

“کشمیریوں سے رشتہ کیا لا الہ الااللہ”

جہاد شروع ہوتا ہے ،تلواریں کلہاڑیاں برچھیاں لہرائی جانے لگیں۔ہمارے بہادر لوگوں نے اس خطے (آزاد کشمیر) سے ڈیڑھ لاکھ غیر مسلم مار بھگائے۔ انقلابی حکومت قائم ہو جاتی ہے ، ریاست بھر میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگوں کی ہجرت اور قتل کے بعد جنگ بندی سمجھوتا ہوا۔ آزادی تو نہ ملی مگر جموں و کشمیر ٹکڑوں میں بٹ گیا۔۔ہزاروں خاندان آر پار کی تقسیم میں بکھر کر رہ گئے۔
جب ہماری آنکھ کھلی تو ہمارے حصے میں تین احکامات تھے۔

اول قومی ترانہ”وطن ہمارا آزاد کشمیر”(بالفاظ دیگر 2 لاکھ 22 ہزار مربع کلومیٹر سے کم ہوکر 13 ہزار 296 مربع کلو میٹر جسے آزاد کشمیر کہا جاتاہے)۔

دوم نظریہ الحاق پاکستان۔

سوم وزارتِ امور کشمیر کی تابعداری

اور ہمارے پاکستانی بھائیوں نے بھی کمال بھائی چارے کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین ہی امور اپنے پاس رکھے ۔

اول مسئلہ جموں و کشمیر
دوم آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان۔

سوم ان دونوں خطوں کے قدرتی وسائل اور یہاں کے لوگوں پر حکمرانی کا اختیار۔
یوں اس کھیل کو جاری رکھنے کے لیے ہمیں قبائلی لارڈز کے کنٹریکٹ میں دے دیا گیا
اور آج۔۔۔۔۔۔
حکومتی اداروں کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہونا حتیٰ کہ حیوانوں کے برابر سمجھا جانا ،عزت نفس کا اس قدر پامال ہونا کہ اپنے حق کو بھی احسان سمجھنا، دفاتر میں سرکاری اہلکاروں کا توہین آمیز سلوک ،رشوت و سفارش کے بغیر کوئی کام نہ ہونا ،ٹوٹی سڑکوں پر کھٹارہ گاڑیوں میں سفر مجبوری بننا۔
آلودہ پانی ناقص خوراک ابلتے گٹر، غلاظت کے ڈھیر ،گندے اسپتال، غیر ہمدرد ڈاکٹر،غیر معیاری ادویات ،انصاف کی عدم فراہمی
بےروزگاری غربت و افلاس،مہنگائی۔۔۔۔۔۔
ہمارا مقدر بنا دیا گیا ہے ۔
ہم 1947 کے دکھ بھول گے ۔
جو کچھ اب مارے ساتھ ہورہا ہے اس نے ہماری زندگیوں کو پہلے سے زیادہ مشکل بنا دیا۔ یہ مار دھاڑ لاقانونیت سب کچھ ختم ہونے کی ہماری خواہش اپنی جگہ مگر یہ خواہش محض خواہش ہے ہمارا جنون نہیں۔

ہمیں انتظار ہے ۔۔۔۔

کوئی آئے پھونک مارے اور سب کچھ درست ہو جائے۔لیکن 1947 میں ایسا ہوا نہ اب ہو گا البتہ آج تک غیر یقینی صورتحال میں
رہنمائی کا لبادہ اوڑھ کر آنے والے سیاسی مداری ہمارے ان احساسات کا فائدہ اٹھاتے رہے۔
روزگار کے وعدے کرتے رہے ،صحت تعلیم انصاف اور مواصلات کی سہولتوں میں بہتری کے اعلانات کیے جاتے رہے بد عنوانی کے خلاف موثر اقدامات کے عزم کا اظہار ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔۔
جسں پر اس خطے کے محدود اقتدار کی عنایت ہوئی اس نے شروع شروع میں کارکردگی دکھانے کے لیے دوچار سرکاری اہلکار اندر کیے، کبھی کبھی ایک آدھ سیاسی مخالف پس زنداں ہوا، اہم شہروں میں صفائی مہم شروع ہوئی ،تجاوزات کے خلاف اپریشن ہوا، سرکاری ملازمین کی بروقت حاضری کے لیے سرکلر جاری ہوئے، غیر معیاری اشیائے خورونوش کے خلاف انتظامیہ حرکت میں آئی ،اشیاء کی قیمتوں کی فہرست آویزاں کرنا لازم ٹھہری ،کھلی کچہریوں کا انعقاد کیا جاتا رہا ۔ریڈیو اخبارات ٹی وی کے ذریعے کارکردگی کی تشہیر کی جاتی رہی ۔ نتیجتاً عام آدمی میں امید پیدا ہوئی کہ اب مسائل حل ہوں گے انصاف اور احتساب ہوگا۔روزگار ملے گا، خوشحالی آئے گی۔
مگر۔۔۔۔۔ یہ سارا کھیل ہمیشہ ہمیں چند ماہ بعد سمجھ آیا وہ بھی تب جب زندگی آہستہ آہستہ اسی جگہ واپس آئی جہاں سے چلی تھی ۔۔۔
ایک کے بعد دوسرے مداری سے واسطہ۔۔۔۔۔۔ سب اپنا اپنا مال بیچتے رہے تحریک آزادی جمہوریت اور خدمات کے “ڈبل شاہ”۔۔۔۔وجہ کیا ہے ؟؟؟؟

اس خطے میں سیاسی جدوجہد سے کوئی لیڈر نہیں بنا کسی کو مخصوص حالات کی ضرورت کے تحت آگے لایا گیا، کوئی کسی کے مدمقابل تراشا گیا۔

اس طرح ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں پر غیر جمہوری مزاج کے حامل مفاد پرست عناصر قابض ہوئے ۔
ایسا کوئی بھی سیاسی عمل جس سے عام آدمی میں شعور پیدا ہو وہ طاقتور ہو اس طبقے کی موت تھی اور ہے ۔
جلسوں اور الزامات پر مبنی اخباری بیانات کے ذریعے لیڈرشپ خود کو سیاسی طور پر زندہ رکھے ہوئے ہے ۔
سیاسی بزنس میں مظبوط بوٹوں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ ٹریڈ یونین کے راہنماؤں،طلبہ لیڈروں بااثر علماء ومشائخ، گدی نشینوں صحافیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انھیں مراعات دی جاتی ہیں، جس سے ان کے خلاف اٹھنے والی آواز خاموش ہو جاتی ہے ۔
اپنے مفادات کے لیے یہ طبقہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایجنٹ بن کر مقامی وسائل ان کی گرفت میں دینے کے لیے اپنی سیاسی حیثیت استعمال کرتا ہے۔

ان کے نزدیک عوام جلسوں اور استقبالیہ پروگرامز کا خام مال ہے

اپنی سیاسی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے انھیں مرہون منت رکھا جانا ضروری ہے ۔
ذرائع آمدن کا معقول حصہ بیوروکریسی کی مراعات سرکاری دفاتر کی تزئین و آرائش غیر ضروری ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف سروسز ( خدمات )کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔
جمہوریت اور خدمت کے بیانیے کے ساتھ سیاست کرنے والے وی آئی پی بن کر دنیا بھر کی سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں۔
اس سارے کھیل کا شکار ہم ہیں اور شکاری پاکستان اور آزاد کشمیر کے ہر دور کے صاحبان اقتدار اور حقیقی بالا دست حکمران ۔
آزادی آزادی کے محبت بھرے اس کھیل میں ہم سب کچھ دے بیٹھے۔
اپنی سرزمین اپنی شناخت ،اس دھرتی کے بلند وبالا پہاڑ بہتے دریا ۔۔
رل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں