سات برسوں کے غور وفکر اور بحث ومباحثے کے بعدآخر کار پاکستان نے اپنی پہلی قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کردیا ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کو سیاسی لیڈرشپ اور عسکری احکام کی مکمل تائید اور حمایت حاصل ہے۔ باالفاظ دیگر منتخب حکومت اور ادارے سب ایک پیج پر ہیں۔
سات دہائیوں کے بعد حکومت پاکستان نے جامع سکیورٹی پالیسی کا اعلان کیا جس میں معاشی خوشحالی اور خودانحصاری کو ترجیح اوّل قراردیاگیاہے نہ کہ جیو اسٹرٹیجک پالیٹکس کو۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ پاکستان خطے میں ترقی، خوشحالی، علاقائی روابط کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے وسائل اور توانائی صرف کرے گا۔ نتیجتاً خطے کے ممالک کے مابین تجارتی اور کاروباری روابط کو فروغ ملے گا۔
Pakistan's first National Security Policy document has been approved by the National Security Committee and the Cabinet, with economic security placed at its core. pic.twitter.com/Fu569pabRf
— SPPC (@SPPCPakistan) December 30, 2021
ریلوے اور سٹرکوں کا جال بچھایا جائے گا جو محض پاکستان اور چین تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ایران، ترکی اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی اس نیٹ ورک میں شامل کیا جائے گا۔ اگر چہ افغانستان علاقائی تجارت کی ایک اہم گزرگاہ ہے لیکن فی الحال وہاں حالات سازگار نہیں۔
تاہم اطمینان بخش بات یہ ہے کہ طالبان کی حکومت میں کم ازکم پاکستان مخالف عناصر افغان سرزمین دیدہ دلیری کے ساتھ استعمال نہ کرسکیں گے۔
نیشنل سکیورٹی ایک ہمہ جہتی تصور ہے۔ یہ محض سرحدوں کی حفاظت کے بندوبست کا نام نہیں۔ اس میں شہریوں کی صحت، تعلیم، صاف پانی اور خوراک کی فراہمی کا انتظام بھی شامل ہے۔
پاکستان جس طرح کے معاشی مسائل سے گزشتہ کئی دہائیوں سے دوچار ہے وہ بھی تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستانی لیڈرشپ تمام تر توجہ ملک کی معاشی صورت حال کو بہتر بنانے پر صرف کرے۔
گزشتہ حکومت کی معاشی پالیسی کو اگر چند الفاظ میں بیان کرنا ہوتو بے بدل شاعر غالب کا ایک شعر مستعار لیا جاسکتاہے۔
؎قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اس کے باوجود گندم ، چینی، آئل، زیتون اور بے شمار دیگر اجناس اسے درآمد کرنا پڑتی ہیں کیونکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ان کی پیدوار پر کوئی توجہ نہیں دی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان سالانہ محض پام آئل کی درآمد پر چار ارب ڈالر خرچ کرتاہے۔ تھوڑی سی کوشش سے پاکستان نے زیتون کی پیدوار میں قابل قدر کامیابی حاصل کی ہے۔ ہزاروں ہزار ایکڑ رقبے پر زیتون کے کروڑوں درخت لگائے گئے ہیں۔
پاکستان میں حکومت اور اس کے ذیلی اداروں نے جب بھی کسی شعبہ کو ترجیح بنایا تو اس میں ہمیں بھرپور کامیابی عطا ہوئی۔ بدقسمتی سے روزاوّل سے ہی پاکستان کی حکومتوں نے بیرونی قرض کی بنیاد پر سالانہ میزانیہ مرتب کیا۔ وسائل کی ضرورت پڑتی تو ملکی یا عالمی مالیاتی ادارے کے سامنے ہاتھ پھیلایاجاتا یا پھر دوست ممالک سے درخوست کرکے وقتی
ضرورت پوری کرلی جاتی۔ لیکن طویل المعیاد منصوبہ بندی اور پھر تسلسل کے ساتھ اس پر عمل درآمد پر توجہ نہ دی گئی۔ جس کی بدولت نہ صرف معیشت کمزور ہوئی لیکن اب حالت یہ ہے کہ دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی قرض اٹھانا پڑھ رہاہے۔
ماضی کی حکومتیں نے وسائل کا رخ تعلیم اور صحت کی طرف موڑنے کے بجائے انفراسٹرکچر یا حکمرانوں اور سرکاری حکام کی عیش کے لیے عشرت کدے آباد کرنے پر لگادیئے۔ عام شہری کو ہنر مند بنانے، ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور پیداواری ذرائع آمدن تک شہریوں کی یکساں رسائی کو ممکن بنانے پر کوئی توجہ نہ دی۔
23 سال پہلے پاکستان ایٹمی قوت بنا جو کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اسے جوہری قوت بننے سے نہ روک سکیں۔ عالم یہ ہے کہ لگ بھگ 40 فیصد آبادی یعنی آٹھ کروڑکے قریب خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہے۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ کرونا کی مہلک وبا نے پوری کردی۔ ایک عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق پاکستان کی80 فیصد غریب آبادی دیہاتوں میں بستی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو اوپر اٹھانے کے لیے متعدد اقدامات کیے لیکن کرونا کی وجہ سے پوری دنیا میں کسادبازاری کا ایک طوفان آیا۔ چنانچہ مہنگائی کے سیلاب میں سرکار کے مثبت اقدامات بھی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ افراط زر کے باعث اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں پوری دنیا میں ہوش ربا اضافہ ہوا جس نے غریب طبقے کے علاوہ متوسط طبقے کو بھی بری طرح کنگال کیا۔
گزشتہ دو برسوں سے وزیراعظم عمران خان اور عسکری احکام مسلسل اس خطے میں سیاسی، سفارتی اور مواصلاتی روابط بڑھانے اور علاقائی تجارت کے فروغ کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان کو علاقائی اور عالمی تنازعات میں الجھانے سے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے وژن پیش کیا ہے کہ پاکستان تنازعات کا حصہ بننے کے بجائے قطر کی طرح تنازعات کے حل میں شراکت دار بنے گا۔
لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں تیز کردی ہیں۔ بھارتی مسلمان تو مسلمان اب نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق عیسائی بھی ہندوانتہاپسندوں سے محفوظ نہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان کو اپنے وسائل کا بہت بڑا حصہ محض اس لیے دفاع پر صرف کرنا پڑتاہے کہ اس کی سرحدوں پر بھارت کی فوج کھڑی ہے جو جدید ترین اسلحہ سے لیس ہے۔
نئی قومی سلامتی پالیسی کا اجرا ایک مثبت پیش رفت ہے کم ازکم پاکستان کے تمام ادارے ایک دوسرے کی راہ کھوٹی کرنے کے بجائے اب اتفاق رائے سے معاشی استحکام کے لیے کام کرسکیں گے۔
ارشاد محمود راولاکوٹ/اسلام آباد میں مقیم معروف کشمیری صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے سیکرٹری اطلاعات اور جموں و کشمیر لبریشن سیل کے ڈائریکٹر جنرل بھی ہیں۔