رانا

رانا شمیم توہین عدالت کیس: فرد جرم کی کارروائی مؤخر

اسلام آباد ہائیکورٹ میں رانا شمیم ،انصار عباسی و دیگر کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے کی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ انصار عباسی آپ نے درخواست میں کسی کلیریکل غلطی کی نشاندہی کی ہے اور یہ جو بیانیہ بنا ہے کہ ثاقب نثار نے ایک جج کو کال کی اس سے سائلین پر کیا اثر ہو گا۔ آپ کی خبر نے یہ تاثر دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو اپروچ کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بنچ سے زیادہ کوئی آزادی اظہار رائے کا حامی نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میر شکیل الرحمان صاحب کیوں آج عدالت میں پیش نہیں ہوئے ؟

صحافی انصار عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ میر شکیل الرحمان کی فیملی میں شادی ہوئی تھی جس کے بعد اہلیہ کو کورونا ہو گیا اور میر شکیل الرحمان اہلخانہ کے ساتھ قرنطینہ میں ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کہا کہ بیان حلفی شاید غلط ہوا ہو لیکن ہم پھر بھی چھاپیں گے اور آپ کا اتنا بڑا اخبار ہے لیکن آپ کو یہ نہیں پتہ تھا کہ یہ خبر کس کیس پر اثرانداز ہو گی ؟ یا تو آپ کہہ دیں کہ آپ کو یہ بھی معلوم نہیں تھا اور پھر فرد جرم عائد کرتے ہیں اس کے بعد آپ اپنا مؤقف دیدیں۔

ناصر زیدی نے کہا کہ اس عدالت کے تمام ججز کا احترام ہم دل سے کرتے ہیں اور اس اندھیر نگری میں آپ روشنی ہیں اور ہمیں ہمیشہ آپ سے انصاف ملتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل کیرئیر میں میں نے صرف 2 توہین عدالت کی کاروائیاں شروع کی ہیں۔ عدالت نے پوری سماعت میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ نے کیا غلطی کی ہے اور انسان سے انجانے میں بھی غلطی ہوجاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس عدالت کے لیے سائلین کے حقوق سب سے زیادہ اہم ہیں اور اگر کوئی معروف آدمی بیان حلفی دے چاہے وہ جھوٹا ہو تو آپ چھاپ دیں گے ؟ بیانیہ یہ ہے کہ ایک جج نے ثاقب نثار سے بات کی لیکن وہ بنچ میں شامل ہی نہیں تھے بلکہ بنچ میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شامل تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اپیلیں بعد میں میرے بنچ نے بھی سنیں اور اس بیانیے کے مطابق ہم تینوں پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔ جن کے نام خبر میں لکھے ہیں دو دن بعد ان کے کیسز لگے تھے۔ مجھ پر جتنا مرضی کوئی تنقید کرے مجھے فرق نہیں پڑتا لیکن آپ کا کیس چل رہا ہے اپنے پچھلے اخبار دیکھ لیں آپ کیا چھاپ رہے ہیں۔

عدالت نے میر شکیل الرحمان کے قرنطیہ میں ہونے کی وجہ سے فرد جرم کی کارروائی 20 جنوری تک ملتوی کر دی۔ کیس کی سماعت کے بعد غیر رسمی بات چیت کے دوران سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے کہا کہ میں نے کسی پر کوئی الزام نہیں لگایا۔ صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ بیان حلفی پر قائم ہیں ؟ بار بار بیان حلفی کے سوال پر رانا شمیم خاموش رہے اور پھر کہا کہ 20 کی تاریخ ہے دیکھیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں