مری حادثہ: قصور وار کون؟

تحریر: چوہدری ثاقب خادم

بیس سے زائد گھنٹے ایک ASI آفیسر میڈیا سمیت ہر انتظامی ادارے کو اپروچ کرتا رہا، کہ خدارا کوئی مدد فراہم کی جائے۔ میرے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ہم بری طرح پھنس گئے ہیں، لیکن تمام ادارے و انتظامیہ بچوں سمیت اس کے مرنے کا انتظار کرتے رہے !!!!

مری میں
وزیر اعلیٰ ہاوس،
گورنر ہاؤس،
آرمی کے بیس گیسٹ ہاؤس
اور سینکڑوں چھوٹے بڑے پرائیویٹ ہوٹل وگیسٹ ہاؤس موجود ہیں۔
اچھے خاصے رقبے پر ملٹری بیوروکریسی اپنے چاق چوبند دستوں کے ساتھ موجود رہتی ہے۔
ڈھائی ارب کی مشنری صرف برف ہٹانے کے لیے مری میں موجود ہے۔
محکمہ سیاحت کا بڑا بجٹ ہر سال مری پر خرچ ہوتا ہے۔
محکمہ موسمیات کا ادارہ ہر سال اربوں روپیے لیتا ہے۔

اتنے وسائل اور انتطامات ہونے کے باجود 25 کے قریب معصوم لوگ سردی سے مر جاتے ہیں اور مفکروں کا کہنا ہے کہ قصور وار عوام ہے یہ مرنے والے خود اپنی موت کے ذمہ دار ہیں۔

عوام اپنی گاڑیاں لیکر مری گئی۔
پٹرول اپنا ڈالا۔
ٹول ٹیکس دیا۔
کھانے پینے کی چیزیں، رہنے کے لیے مناسب بجٹ لیکر گھروں سے نکلی، تاکہ ایک دن کے خود کو نفسا نفسی سے نکال کر قدرت کے خوبصورت نظارے کو دیکھ سکے۔ یہ ایک قدرتی خواھش ہے اور مری ایک سیاحتی مقام ہے۔ ایک بڑا شہر ہے۔ انسان بستے ہیں۔ انتظامیہ موجود ہے۔

مری سائبریا کا کوئی ویران برف سے ڈھکا جنگل نہیں جہاں اتنی قیمتی جانیں ضائع ہو جائیں اور قصور وار عوام کو ٹھہرایا جائے کہ عوام مری گئی کیوں؟

میدانی علاقوں کے لوگ خاص کر ملحقہ شہروں سے بے روزگاری کا ستایا ہوا نوجوان،
غربت سے تنگ بھاگ ڈور کرنے والا چار بچوں کا باپ ،
مہنگائی کی چکی میں پسنے والا بھائی،
ظلم ونا انصافی کا شکار متوسط طبقے کا 50 سالہ ادھیڑ عمر چاچا،
بجلی پانی کے مسائل کا شکار ایک عام شہری،
رٹا سسٹم میں پورا سال دماغ کی دہی بنانے والا یونیورسٹی کالج کا طالب علم،
صبح سے رات گئے تک اسکول، ٹیوشن اکیڈمی کے بوجھ تلے دبے ہوئے بچے
اور درجنوں نفسیاتی مسائل کا شکار وہ خواتین جو اپنے خرچے میں سے چند روپیے جمع کرتی ہیں کہ اس بار برف پڑے گی تو ہم مری جائیں گے۔ اس کا رخ کرتی ہیں تاکہ ایک دو دن اپنی ذہنی کوفت دور کر سکیں۔

باپ سوچتا ہے کہ اپنے بچے کو پورا سال یہ یاد کروا کر محنت کروائے گا کہ دیکھو میں آپ لوگوں کو مری لیکر گیا تھا، اس لیے خوب محنت کر کے پڑھو۔
بھائی سوچتا ہے کہ ہمسائے والے مثال دیں گے بہنوں، بھائیوں، بھتیجوں اور بھانجوں کا کتنا خیال رکھتا ہے۔
دیور سوچتا ہے بھابی پورا سال ماں کی طرح خیال رکھتی ہے، میرا بھی کچھ حق بنتا ہے، چلو گھما لاتا ہوں خوش ہو جائیں گے۔
خاوند سوچتا ہے کہ بیوی کو تھوڑا پیار جتوا دے گا کہ دیکھو میری چاہت کم نہیں ہوئی، بس زندگی موقع ہی نہیں ملتا۔
اور کچھ منچلے اپنی جوانی کے دنوں کو یادگار بنانے کے لیے اپنے دوستوں کی ٹولیاں بنا لیتے ہیں کہ یاد کیا جائے وہ بھی کیا دن تھے۔

ایسے میں عام عوام کے پاس وسائل ہی کتنے ہوتے ہیں ؟وسائل ہو بھی جائیں تو ریاست نے جگہیں ہی کتنی بنائی ہیں، جہاں سکون کا سانس لیا جا سکے؟
ان میں سے جب بھی کوئی مری کا رخ کرتا ہے تو مختصر تیاری کے ساتھ کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہی تو ہے۔ امید ہے کچھ سہولت مل جائے گی۔ اگر نہ ملی تو واپس آ جائیں گے۔ اسلام آباد و راولپندی تو سب کچھ نارمل ہے۔ بس یہی سوچ کر سب ایک دو دن کی تیاری کر کے چلے جاتے ہیں۔

محکمہ موسمیات کس بلا کا نام ہے؟ کیا وہ موسم کی پیشن گوئی کر کے اداروں اور عوام کو الرٹ نہیں کر سکتی؟

اگر محمکہ موسمیات نے اپنا کام کر دیا تو محمکہ سیاحت کو اس سیاحتی مقام کے اعداد وشمار نہیں معلوم کہ کتنی گنجائش موجود ہے؟ اور کس طرح سیاحوں کے رہن سہن کھانے پینے اور سفری سہولیات کو دیکھنا ہے؟
اگر محکمہ سیاحت کو یہ سب معلوم تھا تو پھر اس موسم میں انتظامیہ کا کیا کردار بنتا ہے ؟

انتظامیہ کو نہیں معلوم کہ کون سے انٹری پوائنٹس ہیں ؟کتنے لوگ اس مقام پر چلے گے ہیں اور باقی کتنی گنجائش موجود ہے ؟ اگر انتظامیہ سے عوام کنڑول نہیں ہو رہی تو یہ مسئلہ عوام کا ہے یا پھر انتظامیہ کی نااہلی؟ کیوں کہ انتظامیہ کا کام عوام کو اخلاقی درس دینا نہیں، بلکہ حکومتی پالیسی پر علمدارمد کروانا ہوتا ہے، تاکہ کسی قسم کا جانی و مالی نقصان نہ ہو۔ اسکے بعد برف پڑنے پر مری میں موجود ادارے و انتظامیہ کس بات کا انتظار کرتے رہے کہ سڑکیں کس طرح صاف کرنی ہیں اور سفری معاملات کی رکاوٹوں کو کیسے دور کرنا ہے ؟

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ریاستی نظام جان بوجھ کر عوام کے لیے مسائل کھڑے کرتا ہے، تاکہ عوام اس طرح کے بے معنی و فضول مسائل میں الجھی رہے ہر بات کا قصوروار عوام کو ٹھہرایا جائے۔ ان پر اس طرح کے مسائل مسلط کیے جائیں تاکہ انہیں شعور سے کوسوں دور رکھا جائے۔ کچھ بھی ہو جائے عوام کو کہہ دیا جائے کہ بھائی قصور تو تمہارا اپنا ہے ہماری تو کوئی ذمہ داری ہی نہیں۔

75 سالوں سے اس طرح کے ہزاروں واقعات ہو چکے ہیں، لاکھوں لوگ مر چکے ہیں، لیکن ہمارے ہاں سارا ملبہ آپس میں یا زیادہ سے زیادہ چند سیاستدانوں پر تھوپ دیا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں ان تمام باتوں کا ذمہ دار یہ ظالم نظام ہے۔
وہ نظام جو اداروں کو ان کی ذمہ داری کا احساس نہیں دلاتا۔
وہ نظام جو مرنے والے کا قاتل معلوم نہیں ہونے دیتا۔
وہ نظام جو حادثے اور واقع کا قصوروار عام عوام کو ٹھہرا کر خود بری الزمہ ہو جاتا ہے۔وہ نظام جو پچھتر سالوں سے عوام کے لیے مشکلات ہی پیدا کر رہا ہے۔
وہ نظام جس نے مخصوص طبقوں کو تو ہر آسائش فراہم کر رکھی ہے لیکن اکثریت عوام کے لیے خوشی کے چند لمحات بھی مہیا نہیں کیے۔

اور یہ نظام سرمایا داروں، وڈیروں، جاگیر داروں، ملٹری و سول بیوروکریسی نے بنا رکھا ہے، چلا رہے ہیں اور قائم کر کے رکھا ہے۔ عام عوام کو اس نظام کو سمجھنا ہوگا۔ ان اداروں کو سمجھنا ہو گا جو مل کر نظام بناتے ہیں، چلاتے ہیں اور خود عیاشیاں میں مگن ہو کر عوام کو ذلیل وخوار کر کے موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔

اس شاطر و ظالم نظام کو سمجھ کر اس کے متبادل انسانیت و عادلانہ نظام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اداروں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلانے اور ان سے کام لینے والا نظام قائم کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ کوئی حل ہے نہ کوئی چارہ ۔ ۔ ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں