سندھ ہائی کورٹ نے انسپکٹر جنرل(آئی جی)پولیس سندھ مشتاق مہر کی سرزنش کر تے ہوئے کہا ہے پولیس لاشیں خرید کر پریس کانفرنس کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کہ آئی جی صاحب! آپ سے مٹھی بھر ڈاکو کنٹرول نہیں ہو رہے۔
پولیس لاشیں خرید کر پریس کانفرنس کرتی ہے۔ شہید ڈی ایس پی کے اہلِ خانہ کو معاوضے کی عدم ادائیگی کے خلاف درخواست پر عدالت نے آئی جی سندھ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس آفتاب احمد گورڑ اور جسٹس عدنان الکریم پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو آئی جی سندھ مشتاق مہر ان کے روبرو پیش ہوئے۔
بنچ کے سربراہ جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے مشتاق مہر کو دیکھتے ہی کہا کہ آئی جی صاحب! آپ سے سندھ میں مٹھی بھر ڈاکو کنٹرول نہیں ہو پا رہے۔ ڈکیتیوں اور چوریوں کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔ صوبے میں لوگ مر رہے ہیں۔ پولیس والے بھی شہید ہو رہے ہیں۔ آپ 3 سال سے آئی جی ہیں۔
پولیس کے کمانڈر ہیں کچھ نہیں کر پا رہے؟۔ انہوں نے کہا کہ کندھ کوٹ میں پل بن رہا ہے۔ ڈاکو ان سے بھی پیسے مانگ رہے ہیں۔ کہا گیا کہ 4 ڈاکو مار دیئے، ڈاکو پولیس نے نہیں مارے۔
ڈاکوئوں کے ایک گروپ نے دوسرے گروہ کے ڈاکو مارے۔ جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے ریمارکس دیئے کہ اندر سے سب ملے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں۔ آئے دن چوریوں اور ڈکیتیوں کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔
انہوں نے آئی جی سندھ مشتاق مہر کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب آپ سے کیوں کنٹرول نہیں ہو پا رہا؟۔جسٹس آفتاب احمد گورڑ کی جانب سے سرزنش کے دوران آئی جی سندھ مشتاق مہر ہاتھ باندھ کر خاموش کھڑے رہے۔