راجہ وسیم خان چیئرمین نیو سحر فاونڈیشن
اسلام میں زراعت کی اہمیت:۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ” اور بے شک ہم نے ٹھہرایا زمین کو تمہارے لیے ٹھکانا اور اس میں پیدا کیا اسباب معشیت اور بہت کم ہے تم شکر ادا کرتے ہو”
قرآن کی اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ انسان کے لیے اسباب معشیت زمین میں ہی رکھ دیئے گئے ہیں جس میں سے ایک بڑی معشیت زراعت ہے جی ہاں زراعت روز اول سے انسانیت کی بقاء کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔
نبی اکرم ۖ کا فرمان ہے: “رزق کو زمین کی پہنایوںمیںتلاش کرو” (الجامع الصغیر للسیوطی)
اور ایک روایت میںیوں وارد ہے کہ کسان اپنے رب کے ساتھ تجارت کرتا ہے۔ زراعت و فلاحت کو اتنا پسندیدہ عمل گردانا گیا ہے کہ ہر درخت سے نکلنے والے پھل پر نیکی و ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے: “جو مسلمان بھی کا شتکاری کرتا ہے ، پودا لگاتا ہے، اس سے پرندے، انسان یا جانور کھاتے ہیں تو وہ اس کے حق میں صدقہ ہوتا ہے۔”
آزاد کشمیر میں زراعت :۔
کسی بھی ریاست میں زراعت ریڑھ کی ھڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔ UNDP کے مطابق آزاد جموں و کشمیر میں آبادی میں ہر سال 2% اضافہ ہو رہا ہے۔ آبادی میں یہ اضافہ ریاست کے لیے خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ جسکا سامنا کرنے کے لیے ریاست کے ساتھ ساتھ عوام میں زراعت کی اہمیت اور افادیت کا شعور اجاگر کیا جانا ضروری ہے تاکہ ریاست کا ہر شہری انفرادی طور پر زراعت اختیار کرتے ہوئے ریاست کے بوجھ کو کم کر سکے۔ کیونکہ کوئی شخص خواہ و ہ مالی طور پر کتنا بھی مستحکم ہو۔
لیکن اگر وہ سیلف پروڈکشن نہیں کر رہا تو وہ ریاست پر بوجھ ہے۔ آزاد کشمیر کی زمین بھی زراعت کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ آب وہوا کے لحاظ سے آزاد کشمیر کا شمار دنیا کے بہترین خطوں میں ہوتا ہے۔ ہار ٹیکلچراور انیمل ہسبنڈری کے لیے اسکی سرزمین انتہائی موزوں سمجھی جاتی ہے۔ یہاں کی زمین زرخیز اور آبپاشی کا ایک قدرتی نظام موجود ہے اس میں بسنے والے ہزاروں بے روزگار لوگ زراعت کے فروغ کے لیے بہترین وسائل مہیا کرتے ہیں۔ 2005 ء کے زلزلے سے قبل یہاں کے لوگ اپنی غذائی ضروریات کا بیشتر حصہ اسی زمین سے حاصل کرتے تھے۔ تاہم پچھلے کئی عرصے سے زرعی شعبہ بری طرح متاثر ہو کے رہ گیا ہے۔ جس کے باعث عوام مکمل طور پر اپنی خوراک کا انحصار برآمدات پر کر چکے ہیں۔
عوام کے پاس وسیع رقبہ جات موجود ہونے کے باوجود بہت کم لوگ زراعت پر انحصار کرتے ہیں جسکی بڑی وجہ لوگوں میں زراعت کے متعلق مناسب آگاہی کا نہ ہونا اور مناسب زرعی سہولیات کی کمی اور جدید زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال سے عدم آگاہی ہے۔ اور زراعت سے خاطر خواہ پیداوار حاصل نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ پرانا روایتی طریقہ کار بھی ہے۔ کیونکہ دنیا جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے زراعت میں بہت آگے نکل چکی ہے۔ جیسے ہائی بریڈ بیج اور (GMO) Genetically modified organism کی بدولت کم رقبہ جات سے بہت زیادہ پیداوار حاصل کی جارہی ہے جسکی بڑی مثال Garlic G1 اور Cherii Tomato ہیں۔
آزاد کشمیر میں موسم گرما میں درجہ ذیل سبزیوں کے لیے موزوں ہے۔بھنڈی، کدو، کھیرا، توری، کریلا، آلو، ہلدی، ادرک، ٹینڈا، ٹماٹر، بینگن، سرخ مرچ، شملہ مرچ کی کاشت کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح موسم سرما میں پیاز، کڑم ، مولی، گاجر، شلجم، دھنیا، پالک، میتھی، چقندر، مٹر، پھول گوبی، بند گوبی ، لہسن، زعفران، سٹیویا اور مشروم کاشت کیا جا سکتا ہے۔
اسکے علاوہ پھلدار پودہ جات میں آڑو، آلو بخارا، اخروٹ ، انار، ناشپاتی، انجیر، انگور، املوک، چیری، سیب، شہتوت، خوبانی، امرود، سٹرابیری، بہی، جامن، چکوترہ،مالٹا، کیلا، زیتون، لیمو، میٹھا، لسوڑااور لوکاٹھ کاشت کیے جاسکتے ہیں۔
سی پیک کی اہمیت:۔
جس طرح پاکستان کے ساتھ کے لیے سی پیک بہت اہمیت کا حامل ہے۔ چائنہ پاکستان کوری ڈور اپنے تکمیلی مراحل کی طرف رواں دواں ہے یہ پاکستان کی تاریخ کا مہنگا ترین منصوبہ ہے۔ ملٹی بلین ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیے جانے والے اس منصوبے کے تحت ٹریڈ انفراسٹرکچر تیار کیا جارہا ہے۔
جس میں روڈنیٹ ورک، ریلوے ٹریک اور سپیشل اکنامک زون بنائے جارہے ہیں ویسٹرن چائنہ سے لے کر گوادر تک پھر سنٹرل ایشیا سے جزیرہ نم عرب اور حتیٰ کہ افریقہ تک ایک تجارتی گزرگاہ بنائی جارہی ہے جس کے باعث علاقائی مارکیٹس مل کر میگا مارکیٹس کی شکل اختیار کر جائیں گی اب ہمیں ویسٹرن چائنہ سے لے کر افریقہ تک ایک منڈی میسر آرہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس میگا مارکیٹ میںہماری کیا حیثیت ہو گی؟
اب ہم امپورٹ تو کررہے ہوں گے کیا ہم اس منڈی میں سیلر بھی بن سکتے ہیں؟
یقینی طور پر فائدہ تو صرف سیلر بننے میں ہی ہوگا پہلے بھی تجارتی خسارے کا حجم بہت بڑھ چکا ہے اور اب بھی اگر ہم صرف امپورٹ ہی پر منحصر رہے تو ہماری بقاء شدید خطرات سے دوچار ہو جائے گی۔ اور اگر ہم سیلر بن گئے تو کم از کم ایک عدد پروڈکٹ ہی سیل کرنے کے قابل ہونگے تو ہماری ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندئہ تعبیر ہو سکتا ہے
اس میگا مارکیٹ میں کیسے سیلر بنا جائے؟
نیو سحر فائونڈیشن آزاد کشمیر کے پروجیکٹس:۔
ریاست آزاد کشمیر کے پاس ایک سنہری موقع ہے وہ ایسے انقلابی اقدامات اٹھائے جس سے اپنے ملکی وسائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہو سکے۔ آزاد کشمیر کا خطہ انتہائی مفید آب و ہوا کا خطہ ہے جس میں زراعت کا ایک بڑا پوٹینشل موجود ہے ۔ ہارٹیکلچر اور انیمل ہسبنڈری کے لیے اپنی مثال آپ ہے یہ خطہ عرصہ دراز سے سحر کا منتظر ہے۔ یہاں کے بے روزگار نوجوان قدرتی نظام آبپاشی اور وسیع و عریض زرعی رقبہ جات ،زرعی سرگرمیوں کے لیے بنیادی لوازمات مہیا کرتے ہیں۔
اس خطہ کی زراعت کی ترقی کا مطلب اس خطہ کے قدرتی وسائل سے استفادہ حاصل کرنا ہے۔ قدرت کی عطاکو قابل استعمال بنانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کی گئی ہے جو عوام اور حکومت کے مکمل تعاون کی مرہون منت ہوگی۔ چونکہ یہ خطہ ایک زرعی معشیت کا حامل ہے لہذا زراعت کی ترقی کے بغیر معاشی ترقی کا خواب محال ہے معشیت کسی بھی ملک و قوم کی ترقی میں بنیادی کردار کی حامل ہوتی ہے۔
نیوسحر فائونڈیشن آزاد کشمیر کے لوگوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے پرعزم ہے ہم وہ معاشی منصوبہ بندی عوام کے لیے لارہے ہیں جس میں سب سے پہلے لوگ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے تجربہ سے گزاریں گئے۔ معشیت کی تمام بنیادی اکائیوں کو عمل میںلا کر لوگوں کو اپنی اور آنے والی نسل کے لیے مشعل راہ بنے گی جو کہ ہماری فائونڈیشن کا مشن ہے۔
غیرت ایمان کا بنیادی تقاضہ ہے اور غیرت کا تعلق خوداری سے ہے اگر آپ خودار ہیں تو آپ ایک غیرت مند قوم ہیں او رایک غیرت مند قوم ہی ایک ترقی یافتہ قوم قرار پاتی ہے۔ ہمارے سامنے بہت سی قوموں کی مثالیں ہیں جوا پنے بل بوتے اور قدرت کے عطاکردہ وسائل کوا ستعمال کر کے ترقی یافتہ ہوئی ہیں۔ نیوسحر فائونڈیشن آزاد کشمیر لوگوں میںپائے جانے والے خوداری کے جذبات کو پروان چڑھانے اور انھیں خوداری کے ثمرات ملنے تک انکی مکمل رہنمائی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ اپنے اسلاف کو زندہ کرنے اور لوگوں کی حقیقی معنوں میں ان اصلاف سے روشناس کروانے کے لیے ہمہ وقت جدوجہد میںہے۔
زرعی کاروبار اور ان کے فروغ کے لیے ایک ایسی مناسب حکمت عملی کی ضرورت پیش تھی جس کے تحت خاص طور پر ایسے کاروبار کو ترجیح دی گئی ہو جو کہ زیادہ بہتر معنوں میں پھل پھول سکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وقت و حالات کو اچھی طرح کا انتخاب عمل Skill Development بھانپتے ہوئے زرعی کاروبار کی افادیت اور اہمیت کو عوام الناس میں متعارف کروانے پر اتفاق ہوا ہے۔ قدرت کے مزاج کے مطابق اس خطے کی ترقی و خوشحالی کیے لیے زرعی کاروبار پر اتفاق جہاں اس خطے کے بنیادی مسائل کو کم کر رہے ہیں وہیں لوگوں کو مظاہر قدرت سے آشنائی بھی فراہم کررہے ہیں۔ یعنی پیشہ بھی اور عبادت بھی۔
زرعی کاروبار چونکہ دنیاکا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے لہذا وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ایسے کاروبار کے فروغ کے لیے آغاز میں ریاست بھر کے نوجوانوں کو زرعی کاروبار کی اہمیت و افادیت کے متعلق آگاہی فراہم کی جائے گی۔ ایک منظم اور مربوط آگاہی مہم جہاں لوگوں میں زراعت کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرے گی وہیں نوجوانوں کو اس سے وابستگی پر آمادہ بھی کرے گی۔
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نیوسحر فائونڈیشن آزاد کشمیر نے زرعی اصلاحات کے لیے ذیل میں دی گئی عملی کاوش شروع کی ہے۔
جن کی تفصیل ذیل ہے۔
٭ ورک شاپ ایگریکلچر کی اہمیت۔(کاشتکاری کے جدید طریقہ کار)
٭ ویلج ڈ ویلپمنٹ پروگرام ۔(ویلج فارمر کمیٹی کا قیام)
٭ ایگری بزنس ٹریننگ۔
نیو سحر فائونڈیشن کے چیئرمین راجہ وسیم کی ہدایت پر عوام میں زراعت سے آگاہی کے حوالے سے مختلف علاقوں میں محکمہ زراعت کے تعاون سے ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا ہے۔ جس میں محکمہ زراعت کے ماہرین نے لوگوں کو زراعت کی افادیت اور زراعت کے جدید طریقے اختیار کر کے زیادہ اور بہتر پیداوار حاصل کرنے کے حوالے سے ٹریننگ دی گئی۔ ورکشاپس کا آغاز حلقہ کھاوڑہ سے کیا گیا اور پہلی ورکشاپ اتراسی کے مقام پر کروائی گئی۔ جس میں محکمہ زراعت کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر مظفرآباد وقاص صاحب نے فارمر کو تربیت دی۔ کچن گارڈن کے حوالے سے تربیت دی گئی اور پریکٹیکل کروایا گیا جس میں 50 فارمر نے شرکت کی۔
دوسری ورکشاپ نڑاں میںکی گئی جس میں فیلڈ آفیسر ایگر یکلچر ناصر خان صاحب نے تربیت دی جس میں زراعت کی اہمیت اورکچن گارڈن کی حوالے سے تربیت دی گئی جس میں 30 فارمر نے شرکت کی۔ تیسری ورکشاپ کماربانڈی کے مقام پر کی گئی جس میں فیلڈ آفیسر ایگر یکلچر ناصر خان صاحب نے قلم کاری اور شاخ تراشی کے حوالے سے فارمر کی تربیت کی۔ جس میں 20 فارمر نے شرکت کی۔
چوتھی ورکشاپ دریکاں کے مقام پر کی گئی جس میں فیلڈ آفیسر ایگر یکلچر حماد چوہدری صاحب نے شجر کاری اور پھل دار پودوں کے حوالے سے فارمر کی تربیت کی۔ جس میں 25 فارمر نے شرکت کی۔ پانچویں ورکشاپ چڑکپورہ کے مقام پر کی گئی۔ جس میں فیلڈ آفیسر ایگریکلچر ناصر خان صاحب نے کچن گارڈن کے حوالے سے فارمر کی تربیت کی۔ جس میں 20 فارمر نے شرکت کی۔
چھٹی ورکشاپ نیو سحر سکل ڈوپلپنمٹ انسٹیٹیوٹ لوئر اتراسی میں ڈاکٹر ثاقب بنگش صاحب PHD ایگریکلچر نے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے فارمر کی مشروم فارمنگ ، زعفران اور سٹیویا کی کاشتکاری کے حوالے سے تربیت کی۔ نیو سحر فائونڈیشن کے زیرِ انتظام ریاست بھر میں فارمرز کے لیے ایسی ہی ورکشاپ کا سلسلہ جاری رہے گا۔
نیوسحر فائونڈیشن آزاد کشمیر کے چئیرمین راجہ وسیم صاحب کی ہدایت پر ماڈل ویلج کے نام سے اتراسی کے مقام پر 2 کنال پر سرمائی سبزیات کا پلاٹ لگایا گیا ہے۔ جس سے لوگوں میں زراعت کی طرف ترغیب دی جا سکے اور لوگوں میں اس کا رحجان بڑھے۔اسی طرح مختلف علاقوں میں ایسے ہی ماڈل تیار کیے جائیں گے جس سے لوگوں میں دوبارہ کاشتکاری کی طرف موٹیویشن پیدا ہو گی۔
اس پلاٹ میں 10 کلوگرام لہسن کاشت کیا گیا جس پر کل لاگت زمین کی تیاری اور بیج کی قیمت ملاکر 14000/= روپے آئی ۔ اور اس سے کل پیداوار 300 کلو گرام حاصل ہوئی جس کی مالیت 1,20,000/= ہے۔
سبزیات میں ماڈل کے طور پر جو سبزیات کاشت کی گئی ۔ اس میں سلاد، کڑم، پالک، دھنیا، مولی، شلجم، چقندرا ور میتھی کاشت کی گئی۔ جسکی زمین کی تیاری اور بیج کی خریداری سمیت کل لاگت مبلغ۔ 16000/= روپے آئی اور اس سے پیداواری آمدن تقریبا 40,000/= روپے حاصل ہوئی۔اس پلاٹ میں محکمہ زراعت کے ماہرین کی زیرِ نگرانی کاشتکاری کی گئی۔
خطہ کشمیر جسے جنت نظیر کہا جاتا ہے اس کو جنت سے تمثیل کیوں کی گئی ہے اس خطہ کی زمین سونا اگل سکتی ہے جیسے پوری دنیا میں کشمیر کا زعفران کو الٹی کے اعتبار سے مشہور مانا جاتا ہے ہم فارمرز کو زعفران جیسے قیمتی پودے کی کاشتکاری کے لیے ورکشاپ کا انعقاد کروانا اور زعفران اور اس جیسے دیگر Valuableجیسے مشروم، سٹیویا جیسی کاشت کرنے کے لیے بیج مہیا کرنا ہے جس سے ہم ابتدائی مرحلے میں حلقہ کھاوڑہ میں 25 فارمرز کو مشروم لگانے کا طریقہ سمجھایا گیا اور مشروم فارم لگا کر بھی دیئے جس سے کم وقت میں زیادہ منافع حاصل کیا جائے گا۔
نیوسحر فائونڈیشن کا مقصد لو گوں کو مچھلی پکڑ کر دینا نہیں بلکہ مچھلی پکڑنا سکھانا ہے تاکہ ہنرمند معاشرہ تشکیل پا سکے۔
“آزاد کشمیر کے دیہی علاقوں کی ترقی میں زراعت کا کردار” ایک تبصرہ