پاسپورٹ

پاسپورٹ بلیک لسٹ کرنے کا قانون کالعدم قرار

لاہور ہائیکورٹ نے پاسپورٹ اینڈ ویزہ مینول 2006 کا پیرا 51 کالعدم قرار دیدیا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ پاسپورٹ ایکٹ میں بلیک لِسٹ کرنے کی کوئی شق موجود نہیں۔ نواز شریف، شہباز شریف کے کیسز پر اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کے حوالے بھی فیصلے کا حصہ ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ نے زیر سماعت مقدمات کے ملزمان کو بیرون ملک جانے سے روکنے سے متعلق اہم فیصلہ جاری کردیا۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے قانونی نقطہ طے کرتے ہوئے کہاہے کہ کیس کا فیصلہ نہ ہونے پر ملزم کو بیرون ملک سفر کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے شان الہٰی اور انور شاہ کی پاسپورٹ بلیک لسٹ کرنے کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی اور بلیک لسٹ مفرور ملزمان کے پاسپورٹ کی عدم تجدید کے خلاف درخواست پر فیصلہ جاری کیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاسپورٹ ایکٹ 1974، ای سی ایل آرڈیننس 1981بیرون ملک سفر سے متعلق قوانین ہیں۔اس میں بلیک لسٹ کرنے کی کوئی شق موجود نہیں۔

حکومت کسی بھی شہری کا پاسپورٹ منسوخ کرنے سے دو ہفتے قبل اظہار وجوہ کا نوٹس دینے کی پابند ہے۔ عدالت نے کہا کہ حکومت نے درخواستگزاروں کیخلاف پاسپورٹ اینڈ ویزا مینوئل کے پیرا 51 کے تحت کارروائی کی۔ یہ پیرا قانون ساز پالیسی کیخلاف ہے۔

ہائیکورٹ نے فیصلے میں کہا کہ وفاقی حکومت پاسپورٹ ایکٹ کی دفعہ 8کے تحت صرف پاسپورٹ قبضے میں لے سکتی یا منسوخ کر سکتی ہے۔ پاسپورٹ ایکٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی شہری کو بلیک لسٹ کیا جائے۔ کسی جرم میں ملوث شہری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا اختیار وفاقی حکومت کو نہیں۔

عدالت نے کہاکہ پاسپورٹ منسوخ کرنے کے وفاقی حکومت کے فیصلے بھی عدالتی نظر ثانی سے مشروط ہیں۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے مزید کہا کہ 2004 کے شہباز شریف کیس میں کسی بھی شہری کو وطن واپس آنے سے نہ روکنے کا کہا گیا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ2007 میں مسلم لیگ نواز کیخلاف کیس میں سپریم کورٹ آزاد معاشرے کیلئے بنیادی انسانی حقوق کو ریاستی مداخلت پر ترجیح دے چکی ہے۔ کسی بھی شہری کا سفر کرنا اور بیرون ملک جانا بنیادی حقوق کے آرٹیکل کا جزو ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں