میری دانست میں نیلم ویلی کے لوگوں کے لیے مستقبل کا ابھرتا ہوا کاروبار ہے نیلم کے جنگلات کا کاروبار ہے۔ ایندھن کا متبادل ذریعہ نہ ہونے کے سبب وادی کے قدرتی جنگلات پر شدید دباؤ ہے اور جنگلات آبادیوں سے دور دور تک ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ان درختوں کی کاشت جو نسبتا کم وقت میں جوان ہو سکتے ہیں ایک بہتر متبادل مہیا کر سکتا ہے۔ یہ متبادل وادی کے قدرتی جنگلات پر دباؤ کو کم کرے گا اور لوگوں کو گھر کے دروازے پر متبادل ایندھن فراہم کر سکے گا۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق قابل تجدید جنگلات سے توانائی کا حصول ماحول کے لئے منفی نہیں ہوتا اس لیے کہ یہ جنگلات اپنی نمو کے دوران فضا سے کاربن جذب کرتے ہیں اور ان کو جلاتے وقت یہی کاربن واپس ماحول میں شامل ہوتی ہے ۔ اس لئے ان جنگلات کا مجموعی کاربن فٹ پرنٹ صفر ہوتا ہے۔ جبکہ قدیمی جنگلات کی لکڑ بطور ایندھن استعمال کرنے سے صدیوں سے جذب شدہ کاربن واپس فظا میں شامل کیا جاتا ہے۔ قابل تجدید جنگلات زمین کے کٹاؤ وغیرہ کو روکنے میں معاون ہو سکتے ہیں ۔
اس کاروبار میں کافی زیادہ جدت کی بھی گنجائش موجود ہے، دنیا میں ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جو سالڈ بائیو ماس یعنی لکڑ وغیرہ کو مائع یا گیس میں تبدیل کر کے ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال کے قابل بناتے ہیں۔ وہ نوجوان جنہیں ٹیکنالوجی میں زیادہ دلچسپی ہو وہ اس قسم کی ٹیکنالوجی کا کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔ نرم بائیو ماس کو بائیو گیس ٹیکنالوجی کے زریعے قدرتی کھاد اور توانائی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
میرے نزدیک قابل تجدید جنگلات کے کاروبار کا سب سے بہتر ذریعہ یہ ہوگا کہ نسبتا گرم علاقوں میں ایسے درختوں کی نرسری لگائیں جائیں جو پودے کی حفاظت اس وقت کریں جب تک پودا جانوروں کی دست برد سے بچنے کے قابل نہ ہو جائے۔ اگر سفیدے کا پودا نرسری سے مجوزہ جنگل میں اس وقت منتقل کیا جائے جب اس کا قد 20 فٹ سے تجاوز کر چکا ہوں تو ایسے میں اس کے سروائیول کا چانس بہت زیادہ ہوں گا اور بہت جلد وہ معقول مقدار میں ایندھن فراہم کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
قابل تجدید جنگلات میں سب سے پہلا نام سفیدا یا یوکلپٹس کا آتا ہے۔ ان دونوں درختوں کو اکثر لوگ اس وجہ سے پسند نہیں کرتے کہ یہ پودے زیر زمین پانی کی بہت بڑی مقدار جذب کر لیتے ہیں اور زیر زمین پانی کا لیول کم ہو جاتا ہے۔ یہ بالکل حقیقت ہے کہ ہموار زمینوں میں سفیدے کی کاشت زیر زمین پانی کے لیول کو بہت کم کرتی ہے لیکن وادی نیلم کے ایسے پہاڑی علاقے جہاں سلوپ 75 ڈگری سے زیادہ ہو وہاں اس درخت کی کاشت واٹر لیول کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اس لیے سفیدے کے درخت ایسی ہی جگہ پر کاشت کئے جائیں جہاں زمین کا سلوپ کافی زیادہ ہو اور قریب میں پانی کا چشمہ موجود نہ ہو جسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔
دنیا میں قابل تجدید جنگلات کی ایسی قسمیں بھی تیار کی گئی ہیں جونسبتاً کم پانی استعمال کرتی ہے، اس کے علاوہ مقامی طور پر بائیو ٹیکنالوجی کے ماہرین بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں کہ وہ جینٹکس ٹیکالوجی سے ایسے درخت تیار کریں جو بائیو ماس زیادہ پیدا کریں لیکن پانی کا استعمال کم سے کم ہو۔
جن لوگوں کو وسائل کی شدید کمی کا سامنا ہے قابل تجدید جنگلات کا کاروبار ان کے لیے بھی دشوار نہیں ہوگا۔ سفیدے یا بید کے درخت انتہائی کم قیمت میں دستیاب ہیں۔ تاہم اس کاروبار کے لیے محنت کرنی ہوگی اور یہ محنت سیاستدانوں کے پیچھے نوکری کے حصول کیلئے بھاگنے سے زیادہ مناسب آپشن ہے۔
قابل تجدید جنگلات کا کاروبار لائیو سٹاک کے کاروبار کے لیے بھی انتہائی موزوں ہوگا۔ وہی درخت جن کی لکڑی ایندھن کے کام آئے گی ان کے پتے لائیو اسٹاک کے لئے خوراک کا کام کر سکتے ہیں