1932ء میں دین کی سر بلندی اور آزادی کی خاطر سردار سبز علی اور سردار ملی خان نے اپنی کھالیں کھینچوا کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔ تحریک آزادی کے لیے ان کی اس عظیم قربانی پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ (سردار مسعود خان)

1932ء میں دین کی سر بلندی اور آزادی کی خاطر سردار سبز علی اور سردار ملی خان نے اپنی کھالیں کھینچوا کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔ تحریک آزادی کے لیے ان کی اس عظیم قربانی پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ (سردار مسعود خان)
منگ(کشمیرلنک )صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ سردار سبز علی خان اور سردار ملی خان نے 1932ء میں ڈوگرہ سامراج کے خلاف دین کی سر بلندی اور آزادی کی خاطر آواز بلند کرتے ہوئے وقت کے فرعون کے سامنے موسیٰ بن کر کھڑے ہوئے اور اپنی زندہ کھالیں کھینچوا کر ایک نئی تاریخ رقم کی اور حق کا راستہ چھوڑا ۔ صدر سردار مسعود خان نے ان خیالا ت کا اظہار سردار سبز علی خان و سردار ملی خان شہید کانفرنس منگ سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم سب کے لیے ایک اعزاز کا مقام ہے کہ ہم شہیدوں ، غازیوں اور مجاہدوں کی اس سر زمین منگ میں جہاں اپنے محسنوں کو خراج تحیسن پیش کر نے اور عہد کی تجدید کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں وہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ خطہ جذبہ ایمانی ، جذبہ جہاد اور اسلامی اقدار سے سر شار لوگوں کی سر زمین ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 1832 میں مجاہدین منگ نے جو قربانیاں دی ہیں وہ کسی ایک قبیلے ، علاقے یا ریاست کے لیے نہیں تھیں ۔ بلکہ اس کے پیچھے ایک تاریخ ہے اور یہ قربانیاں ایک وسیع مقاصد کے لیے تھیں جو جنوبی ایشیاء میں ممتاز اور منفرد ہیں ۔ ان جانثاروں کا کوئی جواب نہیں ۔ جنہوں نے راہ حریت میں اپنی زندہ کھالیں کھینچوائیں اور یہ ثابت کیا کہ اس سر زمین نے آزادی کشمیر اور دفاع پاکستان کے لیے نامور سپوتوں کو جنم دیا ۔ سردار مسعود خان نے کہا کہ اپنے اسلاف کی تاریخ کو دہرانے اور کفر و باطل کی دیوار کو گرانے ، ڈوگرہ رجیم کو ملک سے بھگانے اور اسلام کا پرچم لہرانے کیلئے اسی دھرتی کے عظیم سپوت لیفٹیننٹ محمد افسر خان شہید نے بھی علم جہاد بلند کیا اور ان کا مقام شہادت بھی اسی تاریخی درخت کے قریب ہی واقع ہے۔ اس دھرتی کے ایک اور عظیم سپوت کرنل شیر خان شہید نے بھی آزاد ی کی جنگ میںچھجہ پہاڑی کے مقام پر جام شہادت نوش کیا اس طرح 1832 ء میں منگ کی اس دھرتی کے 16 مجاہدین نے جام شہادت نوش کیا، 1947 ء میں 55 سرفروشوں نے شہادت کو گلے لگایا، 1965ء میں 15 جانبازوں نے جام شہادت نوش کیا اور 1971 ء میں 20 جانثاروں نے اللہ کے راستے میں اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اسکے علاوہ 1832 ء میں سردار سبز علی خان اور سردار ملی خان کی شہادت کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں یہاں کی عورتوں اور بچوں کو پہلے ایک باڑے میں پابند ساسل رکھاگیا اور بعد میں خواتین کے سامنے ان کے مرد ر شتہ داروں کا قتل عام کیا گیا ۔ خواتین اور بچوں کو ایک ریوڑ کی صورت میں میں پیدل جموں لے جایا گیا جن میں سے سینکڑوں بھو ک اور پیاس کے باعث راستے میں ہی دم توڑ گئے اور جو وہاں زندہ پہنچ گئے انہیں جیلوں میں قید کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے آباو اجداد کی ان عظیم قربانیوں کی بدولت الحمدللہ آج ہم آزاد فضاوں میں سانس لے رہے ہیں اور یہ آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔لیکن افسوس ہے کہ اس پار ہمارے کشمیری بہن بھائی آج تک اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔اور ہندوستان نے ڈوگرہ راج کی طرح آج تک کشمیریوں پر ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ قتل و غارت گری ، عورتوں کی عصمت ریزی کی جا رہی ہے، نوجوانوں کوپیلٹ گنوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ انہیں بصارت سے محروم اور معذور کیا جا رہا ہے ،بے گناہ معصوم سیاسی کارکنوں اور حریت رہنماؤں کو ٹارچر سیلوں میں قید و بند کیا جا رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جار ہی ہیں ۔ظلم و ستم کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود بھارت تحریک آزادی کو دبانے میں ناکام ہے اور داد کے مستحق ہیں ہمارے وہ کشمیری بہن بھائی جو بھارتی مظالم کے سامنے مصمم عزم اور حوصلے کے ساتھ چٹان بن کر کھڑے ہیں اور آزادی کے سوا کسی بات کو ماننے پر رضامند نہیں ہیں صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں کی جانے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بین الاقوامی برادری کو آگاہ کیا جائے۔ ہمیں متحد ہو کر کشمیری بھائیوں ، بہنوں کی آزادی کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور ہم کشمیریوں کی آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جس دن سورج کشمیریوں کی آزادی کی نوید لے کر طلوع ہوگا ۔
_______________________________

اپنا تبصرہ بھیجیں