ٹورنٹو صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان نے کنیڈین سینٹ ،
ہائوس آف کامنز اور آن ٹیارو قانون ساز اسمبلی سے اپیل کی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر
کو اٹھائیں اور اس پر بات کریں ۔ ایک فیکٹ فائنڈ نگ مشن مقبوضہ کشمیر اور
آزادکشمیر بھیجیں جو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی ہولناک صورتحال کا
جائزہ لے اور طویل حل طلب مسئلے کے حل کے لئے مدد کرے۔ صدر آزادکشمیر نے ان
خیالات کا اظہار کنیڈین انٹرنیشنل کونسل کے فاضل ممبران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس اجلاس کی صدارت کونسل کے صدر فراسر مان نے کی ۔ اس موقع پر پاکستانی کونسل
جنرل مسٹر عمران صدیقی بھی موجود تھے۔ ماضی میں کنیڈین انٹرنیشنل کونسل (CIC)کے
فورم کے زیراہتمام مختلف اجلاسوں میں دنیا کے کئی وزراء اعظم ، وزراء خارجہ ،
بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہان اور نامور ماہر ین تعلیم شرکت کر چکے ہیں۔
صدر نے CICکا شکرہ ادا کیا کہ انہوں نے خالصتاً کشمیر کے موضوع پر اس اجلاس کا
انعقاد کیا۔ انہوں نے CICکے ممبران کو آزادکشمیر آنے کی دعوت دی کہ وہ یہاں آکر
اپنی آنکھوں سے انسانی حقوق کی پاسداری ، قانون کی حکمرانی ، انصاف تک رسائی ،
احتساب اور انسانی ترقی ، روڈ انفرسٹرکچر ، توانائی کی پیدوار ، صنعتی ترقی ،
زراعت ، صحت عامہ اور کوالٹی آف ایجوکیشن کے سلسلے میں آزادکشمیر حکومت کے
اقدامات کا مشاہدہ کریں ۔ صدر مسعود خان نے کنیڈا کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے
سکیورٹی کونسل میں فیصلہ کن موڑ پر مسئلہ کشمیر پر مثبت اور اہم کردار ادا کیا۔
اور اقوام متحدہ کے ملٹری گروپ برائے انڈیا پاکستان (UNMOGIP)کے حوالے سے ہمیشہ
حمایت کی اور اس میں باقاعدہ حصہ بھی لیا ۔ صدر آزادکشمیر نے سامعین کو بتایا
کہ کس طرح بالآخر بین الاقوامی برادری نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق
کی بڑے پیمانے پر سنگین اور اندھا دھند خلاف ورزیوں پر اپنی خاموشی توڑی ۔
انہوں نے CICکی توجہ اس رپورٹ کی جانب بھی مبذول کرائی جو حال ہی میں جنیوا
میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حوالے
سے جاری کی۔ جس میں بڑی باریک بینی سے تواریخ کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں روز
بروز دیدہ دلیری سے بڑھتے ہوئے تشدد کے کلچر ، مظالم ، انسانی قتل عام ، حق و
انصاف تک عدم رسائی ، طاقت کا بے جا استعمال ، نوجوانوں اور راہگیروں کو پیلٹ
گن سے نشانہ بنا کر بینائی سے محروم کرنے کے واقعات ، جبری گمشدگیوں اور جنسی
تشدد کا تفصیلی احاطہ کیا گیا ہے۔ صدر مسعود خان نے کہا کہ یہ کافی نہیں ہے
چونکہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے دفتر کو ریموٹ مانیٹرنگ کے
ذریعے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے اعداد و شمار اکٹھا کرنے کے
لئے ہندوستان انہیں وہاں تک رسائی دینے سے انکاری ہے اور وہ قبل ازیں 2016میں
بھی انکار کر چکا ہے۔ صدر مسعود خان نے کنیڈا سے اپیل کی ہے کہ وہ اقوام متحدہ
کے ہائی کمشنر کی اس تجویز کی بھر پور حمایت کرے جس میں ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن
یا انکوائری کمیشن کی تشکیل کی بات کی گئی ہے جومقبوضہ کشمیر میں جاکر
ہندوستانی افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں کا بنظر عمیق جائزہ لے اور
اعدادو شمار اکٹھا کرے۔ صدر نے کہا کہ شدید و سنگین پامالیاں انسانیت کے خلاف
جرائم ، نسلی صفائی اور نسل کشی کے مترادف ہیں ۔ آزادکشمیر کے صدر نے سامعین کو
بتایا کہ عنقریب برطانوی پارلیمنٹ قائم ”آل پارٹیز پارلیمانی گروپ آن کشمیر”
کشمیر کے حوالے ایک رپورٹ کا اجراء کرے گا جس میں وہ ہندوستان کے ان دوبدنام
زمانہ کالے قوانین ”دی آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ” اور ”پبلک سیفٹی ایکٹ
”کے بارے میں بتائے گا کہ کس طرح یہ کالے قوانین ہندوستانی افواج کو نہتے
کشمیریوں کو قتل کرنے کا لائسنس دیتے ہیں اور قاتلوں کے خلاف کسی طرح کی بھی
قانونی کارروائی کا سامنا کرنے اور کسی بھی طرح کی سزا سے بچنے کے لئے تحفظ
فراہم کرتے ہیں ۔ یہ قوانین ریاستی مشینری کو عام شہریوں کو حراست میں لینے اور
انہیں مقید کرنے کی بھی اجازت دیتے ہیں اور انہیں کسی طرح کی چارج شیٹ یا
جوڈیشل رویو کے بغیر کسی بھی شخص کو دو سال تک قید میں رکھنے کی اجازت دیتے ہیں
۔ صدر نے کہا کہ لوگوں کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن کے نام پر قتل کیا جاتا
ہے یا پھر حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کالے قوانین کا فی
الفور خاتمہ ہونا چاہیے ۔انہوں نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ
ہندوستان پر دبائو ڈالے کہ وہ تناسب ، امتیاز اوراحتیاط کے اصولوں پر عملدرآمد
کرے اورغیر مسلح مزاحمت کاروں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے سے باز رہے ۔
صدر نے مطالبہ کیاکہ ہندوستان کو ایک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ بین الاقوامی
تفتیش کاروں کو مقبوضہ تک رسائی دے کہ وہ ان اجتماعی قبروں کی قبر کشائی کر کے
ان تمام Victims کی شناخت کرے جو ہندوستانی ریاستی تشدد کا نشانہ بنے۔ اسی طرح
جنسی تشدد کے واقعات کا بھی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تفتیش اور قانونی
کارروائی ہونی چاہیے۔ صدر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کے بنیادی حقوق اور
ان کی بنیادی آزادیوں کو فی الفور بحال کیا جانا چاہیے اور وہاں انٹرنیٹ ،
موبائل فونز ، اخبارات اور صحافیوں پر لگائی جانے والی پابندیوں کو فوراً اٹھا
لینا چاہیے۔ صدر مسعود خان نے مقبوضہ کشمیر میں مشترکہ مزاحمتی قیادت سید علی
گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کی مسلسل نظر بندی کی شدید مذمت کی
اور مطالبہ کیا کہ کشمیریوں کے ان حقیقی اور سچے نمائندوں کو فی الفور رہا کیا
جائے۔ صدر مسعود خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے اس بحران کی
اصل وجہ کشمیریوں کو حق خودارادیت سے محرومی ہے اور اس مسئلے کو ڈائیلاگ اور
ڈپلومیسی کے ذریعے پرامن طور پر حل کرنے کے لئے ہندوستان کا مسلسل انکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان اس مسئلے کا حل ریاستی تشدد کے ذریعے کرنا چاہتا ہے
لیکن وہ اس مشن میں کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے بہترین
طریقہ کار کے حوالے سے پوچھے گے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر نے کہا کہ
”آئیے مسئلہ کشمیر کو میز پر رکھتے ہیں اور اسلام آباد ، نئی دہلی ، سرینگر ،
مظفرآباداور نیویارک میں Peace Tables قائم کرتے ہیں آئیے کشمیری لوگوں کی رائے
کو جانتے ہیں انہیں اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے
کا اختیار دیتے ہیں آئیے اس خطے سے تشدد کو ختم کرتے ہیں لیکن سب سے پہلے اور
بنیادی طور پر ہندوستانی استبداد کو کشمیر میں ختم کرتے ہیں ” یہاں سے شروعات
ہونگی۔ صدر آزاد جموں وکشمیر نے ایک سابقہ ہندوستانی فوجی آفیسر کے سوالوں کا
جواب دیتے ہوئے کہا کہ کشمیری پنڈت کشمیر میں آکر آباد ہوسکتے ہیں اور مسلمانوں
کی مقامی آبادی انہیں خوش آمدید کہے گی۔ یہ ہندوستانی سابقہ فوجی افسر جو اس
اجلاس میں موجود تھا یہ تجویز دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ کشمیری پنڈتوں کی
شرکت کے بغیر حق خود ارادیت بے معنی ہوگی۔ صدر نے بڑے دو ٹوک انداز میں کہا کہ
ہندوستانی سکیورٹی آفیشلز کے مطابق لائن آف کنٹرول پر آزادکشمیر کی جانب سے
کوئی دراندازی نہیںہو رہی ہے اور کشمیر میں جاری تحریک وہاں کے لوگوں کی اپنی
جاری کردہ تحریک ہے۔ اس ہندوستانی کرنل کا کہنا تھا کہ (UNMOGIP)ہندوستانی
کشمیر پر کوئی کام نہیں کر رہا اور اس کے ممبران صرف سرینگر کو دیکھنے کے لئے
جاتے ہیں ۔ صدر نے کہا جب کہ پاکستانی آزادکشمیر کی جانب (UNMOGIP)پوری طرح سے
فنگشنل ہے اور اسے پاکستانی حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ
ہندوستان کی جانب سے بھی اسی طرح (UNMOGIP)کو تعاون ملنا چاہیے اور ہندوستان کو
UNمشن کو سبو تاژ نہیں کرنا چاہیے یہ اختیار انہیں اقوام عالم نے سیسز فائر
لائن /لائن آف کنٹرول مانیٹر کرنے کے لئے دے رکھا ہے۔
Load/Hide Comments