حجّاج کرام کے لیے زادِ راہ

حج کے دِن قریب آتے جارہے ہیں، جو مسلمان سفر حج کا اِرادہ کرچکے ہیں اُن کی تیاری آخری مرحلے میں ہے، بہت جلد وہ اس بلدِ امین کی مقدس سرزمین پر اپنے قدم رکھیں گے جہاں بیت اللہ شریف واقع ہے، اس گھر کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تعمیر کیے جانے والے پہلے گھر کا شرف حاصل ہے۔
’’اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے وہی ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے اور جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت و برکت والا ہے۔‘‘ ( آل عمران )اللہ رب العزت نے اپنے اس گھر کو اس قدر عزت و عظمت سے نوازا ہے کہ اس نے رہتی دُنیا تک اسے مسلمانوں کا قبلہ بنا دیا، دُنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمان ہیں وہ اسی کی طرف رُخ کرکے اپنی تمام نمازیں ادا کرتے ہیں اور قیامت تک اسی طرح ادا کرتے رہیں گے، صرف اتنا ہی نہیں بل کہ اِسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن یعنی حج کو بھی اس گھر کے ساتھ مربوط کیا گیا۔ خانۂ کعبہ کی تعمیر سے لے کر آج تک بندگانِ خدا ندائے ابراہیمی پر لبّیک کہتے چلے آرہے ہیں اور آئندہ بھی اس پکار پر اسی طرح لبّیک کہتے ر ہیں گے۔ بیت اللہ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں میں حج کا اعلان کریں۔’’ اور لوگوں میں حج کا اعلان کیجیے، لوگ آپ کے پاس چلے آئیں گے پیدل بھی اور دبلی اونٹنیوں پر بھی جو کہ دور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی۔‘‘ ( الحج )خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ آواز سنی اور اس پر لبّیک کہا اور اس طرح انہیں اِسلام کا ایک اہم رکن ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ رکن جسے شریعت کی اصطلاح میں ’’حج‘‘ کہا جاتا ہے زندگی میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے اور ان لوگوں پر فرض ہے جو اس کی اِستطاعت رکھتے ہیں، اِستطاعت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس مکہ مکرمہ تک جانے اور واپس آنے کا خرچ ہو اور واپسی تک اس کے اہل و عیال کی ضروریات کے لیے بھی مصارف موجود ہوں۔’’ اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس مکان کا حج کرنا ہے اس شخص کے ذمے جو کہ وہاں تک پہنچنے کی طاقت رکھے۔‘‘ ( آل عمران )حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ سرکارِ دو عالمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔ یہ سن کر حضرت اقرع ابن حابسؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ہر سال ۔۔۔ ؟ سرکارِ دو عالمؐ نے ارشاد فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال کے لیے فرض ہوجاتا اور اگر فرض ہو جاتا تو تم ادا نہ رپاتے اور نہ اس کی اِستطاعت رکھتے، اس لیے حج ایک مرتبہ ہے جو ایک سے زیادہ مرتبہ حج کرے وہ نفل ہے۔‘‘ (مسند احمد۔ سنن نسائی ) وہ شخص بڑا خوش نصیب ہے جسے اسلام کے اس اہم رکن کی ادائی کی سعادت حاصل ہو اور اس سے بھی زیادہ خوش نصیب وہ شخص ہے جو اس عبادت کو محض دنیوی نام و نمود کے لیے ادا نہ کرے بل کہ اس کا مقصد فرض کی ادائی کے ساتھ حج کی برکتوں، سعادتوں اور رحمتوں کا حصول بھی ہو اور وہ اس فرض کی تکمیل اس طرح کرے کہ اس کا حج، حجِ مبرور بن جائے، جس کی بڑی فضیلت وارد ہے۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا : ’’حج مبرور کا ثواب صرف جنت ہے۔‘‘ ( صحیح البخاری ) شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ حج مبرور وہ ہے جس میں حاجی سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو اور اس کے تمام کام سنّت کے مطابق انجام پائیں، قرآن کریم کی اس آیت میں یہی مراد ہے: ’’سو جو شخص ان میں حج مقرر کرے تو پھر نہ کوئی فحش بات ہے اور نہ فسق اور نہ کسی قسم کا جھگڑا ہے حج میں۔‘‘ ( البقرۃ )مسافرانِ دیارِ حرم پا بہ رکاب ہونے سے پہلے کچھ دیر ٹھہر کر سوچیں کہ انہوں نے اپنے حج کو حج مبرور بنانے کے لیے کیا کچھ تیاری کی ہے؟ سفر حج کے کچھ قانونی تقاضے ہیں وہ پورے کر لیے گئے ہوں گے، پاسپورٹ، ویزا، ٹکٹ، کرنسی اور احرام سب چیزیں ضروری ہیں، یقینا ان ضروریات کی تکمیل کرلی گئی ہوں گی، بہ ظاہر تیاری پوری ہوچکی ہے اور اب اس سفر میں کسی طرح کی رکاوٹ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ مگر اس سے بڑھ کر تیاری روح کی تیاری ہے اور ان ضروریات کی تکمیل ہے جن کا تعلق دِل سے ہے، حج میں جانے سے پہلے ہمیں اس روحانی تیاری پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ ہم اس سفر کے دوران پیش آنے والی ہر ضرورت کی چیز فراہم کرنے میں لگے ہیں اور پوچھ پوچھ کر ضرورت کی تمام چیزیں مہیا کررہے ہیں، ایسا نہ ہو کہ کوئی چیز رہ جائے اور راستے میں یا حرمین شریفین میں قیام کے دوران پریشانی اُٹھانی پڑے، اگر ہمیں احساس نہیں تو حج سے متعلق ان اُمور کا نہیں جن پر اس اہم عبادت کی صحت اور مقبولیت کا دار و مدار ہے اور جن کے بغیر یہ سفر محض مالی اخراجات کا ذریعہ اور جسمانی مشقت کا باعث ہے۔اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو حج کی سعادت حاصل کرنے کی توفیق دے۔ اگر آپ اس سعادت کے مستحق بن چکے ہیں تو جس طرح آپ قانونی تقاضوں کی تکمیل میں مصروف ہیں، اسی طرح روحانی تقاضوں کی تکمیل میں بھی کچھ وقت صَرف کریں۔مسلمان کی شان یہ ہے کہ اس کا ہر عمل اور اس کی ہر عبادت اللہ رب العزت کی خوش نودی اور اس کی رضا کے لیے ہوتی ہے، اگر آپ حج اس لیے کررہے ہیں کہ آپ واپسی کے بعد ’’حاجی‘‘ کہلائیں گے اور لوگ آپ سے معانقے اور مصافحے کریں گے، دُعاؤں کی درخواست پیش کریں گے یا آپ اس لیے حج کر رہے ہیں کہ ان لوگوں کی تنقید سے محفوظ رہیں گے جو آپ کی مالی وسعت و اِستطاعت کے حوالے سے حج نہ کرنے پر مطعون کرنے والے ہیں، اگر حج کے پیچھے یہ ارادے ہیں تو یاد رہے کہ اللہ کو آپ کے اس حج کی ضرورت نہیں ہے، ہوسکتا ہے آپ کے ذمے سے فرضیت ساقط ہوجائے، لیکن ایسا حج ’’حج مبرور‘‘ نہیں بن سکتا، کیوں کہ حج کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ آپ کا حج محض اللہ کی رضا کے لیے ہو، قرآن کریم میں ہے :’’ اور حج اور عمرے کو اللہ کے لیے پورا کرو۔‘‘ ( البقرۃ )یاد رہے کہ تمام اعمال کی صحت اور قبولیت کا دار و مدار نیت کی دُرستی پر ہے، اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے: ’’ حالاں کہ ان لوگوں کو یہی ح
کم ہوا تھا کہ اللہ کی اس طرح عبادت کریں کہ عبادت اسی کے لیے خاص رکھیں۔‘‘ ( سورۃ البینۃ )رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق ہی اجر ملنے والا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری)اِخلاصِ نیت کے بعد ضروری ہے کہ حج کے لیے نکلنے سے پہلے اپنے سابقہ اعمال پر نگاہ دوڑائی جائے، زندگی میں کتنے فرائض و واجبات چھوڑے ہیں، کتنے گناہوں کا اِرتکاب کیا ہے، پھر ان گناہوں میں وہ گناہ کتنے ہیں جن کا تعلق بندگانِِ خدا سے ہے۔ غیبت، چغل خوری، حق تلفی، ظلم و زیادتی، نااِنصافی، بددیانتی، اذیت کوشی یہ سب وہ گناہ ہیں جو ہم کسی احساس کے بغیر ہر وقت کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ہم ان گناہوں کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ یہ گناہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یوں تو ہر مسلمان کے لیے ان گناہوں سے توبہ کرنا اور آنے والی زندگی میں ان سے بچنے کا عہد کرنا ضروری ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے :’’ اور اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کرو تاکہ تم سب فلاح پاؤ۔‘‘ (النور )

اپنا تبصرہ بھیجیں