بھارتی فوج نے کشمیر میں چھروں کے استعمال میں کمی کرنے کی بجائے اضافہ کردیا

بھارتی فوج نے کشمیر میں چھروں کے استعمال میں کمی کرنے کی بجائے اضافہ کردیا ہے پیلیٹ گنز یعنی چھروں کی شکاری بندوق سے گزشتہ کئی برسوں کے دوران ہزاروں نوجوان اور کم سن بچے بینائی سے جزوی یا مکمل طور محروم ہو چکے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق انڈین سکیورٹی فورسز کی طرف سے پیلیٹ گنز کے بے دریغ استعمال سے پچھلے کچھ برسوں میں کم سے کم 3000 افراد کی آنکھیں زخمی ہو چکی ہیں۔مقامی لوگ اسے مردہ آنکھوں کی وبا کہنے لگے ہیں۔ عوامی غصے کے باوجود انڈین سکیورٹی فورسز نے چھروں کے استعمال میں کمی کرنے کی بجائِے اس میں اضافہ کردیا ہے۔حال ہی میں ان چھروں کا نشانہ بننے والی سب سے کم عمر بچی حبا کی آنکھ کا دوسرا آپریشن ہوا۔ اپنی ماں سے لپٹ کر بیٹھی، ننھی سی حبا نثار کشمیر میں چھروں کی سب سے کم عمر شکار تو ہیں، مگر وہ اکیلی نہیں۔دو سال سے بھی کم عمر کی حبا آہنی چھروں کی سب سے کم سن شکار بن گئی ہیں۔ گزشتہ ماہ شوپیان میں مسلح تصادم کے دوران چھ عسکریت پسند مارے گئے جس کے بعد لوگوں نے احتجاج کیا۔ مظاہرین کے خلاف کارروائیوں کے دوران فورسز نے چھروں کا بے دریغ استعمال کیا۔حبا کے چہرے پر اس وقت چھرے لگے جب وہ اپنے گھر میں کھیل رہی تھیں۔ گزشتہ روز سرینگر کے ہسپتال میں ان کا آپریش کیا گیا جس کے دوران ان کی آنکھ سے چھرا نکالا گیا، ڈاکٹروں نے امید ظاہر کی ہے کہ حبا کی آنکھ بچ جائے گی۔شب روزہ کی ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی ہے اور دوسری آنکھ میں مکمل بینائی بحال نہیں ہو سکی ہے۔دو سال قبل پلوامہ میں انڈیا کے سکیورٹی فورسز مظاہرین کا تعاقب کررہے تھے اور جب فورسز نے مظاہرین پر چھروں کی بارش کر دی تو شب روزہ میر کے چہرے پر چھرے لگے جس کی وجہ سے وہ معذور ہو گئی ہیں۔جب یہ واردات ہوئی تو شب روزہ کی عمر سولہ سال تھی اور وہ دسویں جماعت کے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھیں۔ جس دن پہلا پرچہ تھا اس دن ان کا پہلا آپریشن کیا گیا۔ ان کی ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی ہے اور ڈاکٹروں کی لاکھ کوششوں کے باوجود ان کی دوسری آنکھ میں مکمل بینائی بحال نہیں ہو سکی ہے۔ انہیں چلنے پھرنے کے لیے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں