کم سن آصفہ کی عصمت دری اور قتل کے مجرموں کو پھانسی دی جائے سید علی گیلانی کا مطالبہ

گہری اور سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمان خاندان بھگانے کے لیے واردات انجام دی گئی
درندگی اور اخلاق باختہ حرکت کرنے والوں کو پھانسی دے کر کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہیے تھا سری نگر :جماعتی حریت کانفرنس کے چیرمین سید علی گیلانی نے کٹھوعہ میں کم سن آصفہ کی عصمت دری اور قتل کے مجرموں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ایک بیان میں سید علی گیلانی نے عصمت دری اور قتل کیس پر سنائے جانے والے فیصلہ پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک بے گناہ معصوم بچی کو جس وحشی اور درندگی سے عصمت دری کے بعد قتل کیا گیا اس نے ریاست کے عوام ہی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کو ہلا کے رکھ دیا۔ غریب اور مفلس طبقے سے تعلق رکھنے والے ان افراد کو ایک گہری اور سوچی سمجھی سازش کے تحت وہاں سے بھگانے کے منصوبے پر عمل کرنے کے لیے ہولناک واردات انجام دی گئی جس سے پوری انسانیت سرمشار ہوکر رہ گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس درندگی اور اخلاق باختہ حرکت کرنے والوں کو پھانسی دے کر کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہیے تھا تاکہ ایسی سوچ اور ذہنیت رکھنے والوں کے بوجھ سے زمین کے سینے کو بھی صاف کیا جاسکتا۔ ایسے خونخوار درندے اور اُن کی بیمار اور وحشی ذہنیت پوری زندگی جیلوں میں رہ کر بھی ایسے منصوبے بنانے اور ان کو اپنے باقی ساتھیوں کی مدد سے عملانے کے لیے اُکساتی رہے گی جس سے معاشرے اور خاص کر محکوم اور مجبور طبقہ خوف وہراس میں ہمیشہ مبتلا رہے گا۔ آزادی پسند راہنما نے انصاف کے دوہرے معیار کے بڑھتے ہوئے واقعات پر پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف سیاسی بنیادوں پر ایک بے گناہ کو اجتماعی ضمیر کی تسلی کے لیے سولی پر چڑھایا جاتا ہے اور دوسری طرف 8سالہ معصوم بچی کو درندگی کا نشانہ بنانے والوں کو جیلوں کے مہمان بناکر عمر بھر کے لیے پالنے کا فیصلہ سُنایا جاتا ہے۔ ”بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاو” کے پُرفریب نعرے لگانے والے کمسن بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کے ساتھ اس طرح کی رعایت کیسے برت سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ بھارتی قانون ساز اداروں میں اب نصف سے زیادہ ایسے افراد موجود ہیں جو خود اپنے Criminal ریکارڈ کی تصدیق کرچکے ہیں۔ جس معاشرے میں ایک خاص طبقے کے افراد کو بے دردی سے قتل کرنے کا منصوبہ بنانے والے کو لاکھوں ووٹوں کی اکثریت سے پارلیمنٹ میں بھیجا جائے، اس پارلیمنٹ میں ایسے ہی قوانین بننے کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے اس شرمناک واقعے کے اصلی خالق Mastermindکے بیٹے کو شک کا فائدہ دینے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وحشی درندے کو کسی بھی حالت میں کوئی رعایت نہیں دی جاسکتی۔ 18ماہ کے طویل انتظار کرنے کے باوجود اس کمسن بچی کے غریب اور بے آسرا والدین کو اپنی بدنصیب لخت جگر کے قاتلوں کو زندہ دیکھ کر مایوسی ہوئی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اب جرم کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دے کر کبھی مجرموں کو پھول مالائیں پہنا کر انہیں قانون بنانے کے ایوانوں تک پہنچایا جاتا ہے تو کہیں درندگی اور سفاکیت میں ملوث ہونے کے باوجود مجرموں کو رعایت دے کر ہمدردیاں حاصل کی جاتی ہیں اور اگر ایسی نہج کو تقویت اور پزیرائی ملی تو یہ معاشرہ درندوں، چوروں، لٹیروں، قاتلوں اور غنڈوں کے لیے ایک محفوظ جائے پناہ بن سکتی ہے۔ پھر بیٹی بچاؤ کے پُرفریب نعروں سے ووٹ بٹور کر اقتدار تو حاصل کیا جاسکتا ہے، لیکن معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی ہوکر پورا معاشرہ زمین بوس ہوجائے گا۔ کیا انصاف دینے والے ادارے ایسے ہی دن کے انتظار میں بیٹھے ہیں؟

اپنا تبصرہ بھیجیں