بھارت کی ماحولیاتی جارحیت, ولر جھیل کے پاس20 لاکھ درختوں کو کاٹنے کا منصوبہ

شمالی ضلع بانڈی پورہ اور بارہمولہ پرمحیط کرتی ولر جھیل تقریبا سولہ کلو میٹر لمبی اور 9 کلو میٹر چوڑی ہے۔ اس جھیل کا شمار ایشیا کی میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیلوں میں ہوتا ہے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ نے ولر جھیل کی ازسرنو تزئین کاری کے نام پر 20 لاکھ درختوں کو کاٹنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔
ولر جھیل کے کئی حصے جھیل میں پھینکی جانے والی گندگی کے سبب دلدل نما زمین میں تبدیل ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔اس سے ولر جھیل اپنے وسیع رقبے سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق انتظامیہ نے گندگی کا سدباب کرنے کی بجائے 20 لاکھ درختوں کو کاٹنے کا منصوبہ شروع کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق پہلے مرحلے کے تحت 2 لاکھ کے قریب درختوں کو کاٹنے کا کام جاری ہے۔
وولر کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ اتھارٹی نے رامسار دلدل زمین پر درخت کاٹنے شروع کر دیے ہیں۔ یہ علاقہ بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہے۔
رضا کار تنظیم ویٹ لینڈز انٹرنیشنل ساوتھ ایشیا دلدلی زمین کو بحال کرنے کے متعلق کام کرتی ہے اور اس تنظیم نے ولر کے متعلق 2007 میں ایک رپورٹ پیش کی تھی اور اس رپورٹ کی بنیاد پر یہ پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق ولر جھیل گزشتہ کئی برسوں سے سکڑتی جارہی ہے، سرکاری ریکارڈ کے مطابق جھیل کا 27 مربع میٹر علاقہ زمین کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
تاہم ، ماہرین نے اتنی بڑی تعداد میں درختوں کو کاٹنے کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں ریسرچ کا مطالبہ کیا ہے۔القمرآن لائن کے مطابق پاکستان کی ایک معروف ماہر ماحولیات و نباتات پروفیسر عظمیٰ خورشید کی رائے جاننے کے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس حوالے سے بتایا کہ اگر واقعی ہی دلدل کی وجہ سے جنگلات اور درختوں کو کاٹا جارہا ہے تو یہ پاگل پن ہے۔ کیونکہ ولر جیل کے کنارے کافی مقدار میں سفیدے کے درخت بھی موجود ہیں۔ مقبوضہ کشمیر انتظامیہ ولر جھیل کے کنارے پر موجود سفیدے کے درخت کاٹ رہی ہے۔ جو کہ زمین سے پانی کو جذب کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اوریہ ایک طرح سے دلدل کا علاج ہے۔ اس جھیل سے گندگی کا علاج ہونا چاہئے ۔اگرحکومت کوئی اس طرح کا قدم اٹھارہی ہے تو اس کے لئے پہلے وسیع پیمانے پر مطالعے اور ریسرچ کی ضرورت ہے۔دوسری انواع کے درختوں کی کٹائی سے پہلے ان کے ماحول پر اثرات کا جائزہ لینا چاہئے۔ اور مناسب سٹڈی کی جانے چاہئے۔
سرینگر میں وولر کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ اتھارٹی(ڈبلیو یو سی ایم اے )کے کوآرڈینیٹر مدثر محمود نے کہا کہ ہم 1911 کے محصولات ریکارڈوں کے مطابق چل رہے ہیں ، جس نے یہ حد 130 مربع میٹر مقرر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ درخت قدرتی ماحولیاتی نظام کا حصہ نہیں ہیں ، وہ بعد میں برسوں کے دوران لگائے گئے تھے۔ ہم انہیں مرحلہ وار کاٹیں گے۔ پہلے مرحلے میں ، ہم نے دو لاکھ درخت کاٹنے شروع کردیئے ہیں۔
1980 کی دہائی میں ، بھارتی حکومت نے وولر بیراج تعمیر کرکے پانی کو بند کرنے کی تجویز پیش کی۔ تاہم ، اس منصوبے پر ریاست میں عسکریت پسندی میں اضافے کے بعد عمل نہیں کیا گیا ۔
پانی کی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کو بڑھانے کے لئے اس وقت 27.30 مربع کلومیٹر پر واقع ننگلی جنگلات کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔ ساوتھ ایشین وائر کے مطابق اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کو ہٹانے سے کم سے کم ایک میٹر تک پانی کی سطح کو بڑھانے میں مدد ملے گی ، جو حیوانی تنوع کی بحالی کے لئے اہم ہے۔
جبکہ ڈبلیو یو سی ایم اے کے عہدیداروں نے درختوں کو گرنے کے لئے گرین سگنل کے طور پر وولر بحالی کے اثرات کی تشخیص پرکشمیر یونیورسٹی کی طرف سے کی گئی ایک سٹڈی کا مسودہ پیش کیا ہے ، لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس سلسلے میں مناسب سٹڈی کی جانی چاہئے۔
وائلڈ لائف ٹرسٹ آف انڈیا کی ایک تحقیق میں ، درختوں کو کاٹنے کی سفارش کرتے ہوئے ، اثرات کا اندازہ کرنے کے لئے مناسب ریسرچ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ساوتھ ایشین وائر کے مطابق ڈبلیو ٹی آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اوسطا ہر درخت سالانہ33 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے اوریہاں 21.84 لاکھ درخت ماحول کسے 72,000 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے ماحول کی صفائی کا کام کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں