اسلام آباد میٹرو سٹیشن کیس: بیٹی بوجھ تھی اس لیے قتل کردیا

اسلام آباد میٹرو سٹیشن کیس: بیٹی بوجھ تھی اس لیے قتل کردیا۔

ڈی آئی جی آپریشن افضال کوثر نے بتایا ہے کہ ’پولیس کو ابتدا میں ہی بچی کے باپ پرشک تھا کہ وہ اس قتل میں شامل ہے۔ ہم نے جب تفتیش کی اور والد کو اعتماد میں لیا تو انہوں نے آخر میں بتا دیا کہ خود قتل کیا ہے۔

اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے میٹرو سیشن پر ملنے والی بچی کی لاش کا معمہ حل کر لیا ہے۔ ڈی آئی جی آپریشن افضال کوثر کے مطابق ’پولیس کو ابتدا سے ہی بچی کے والد پر شک تھا کہ وہ اس قتل میں شامل ہیں۔ ہم نے جب تفتیش کی اور والد کو اعتماد میں لیا تو انہوں نے آخر میں بتا دیا کہ انہوں نے ہی قتل کیا ہے۔‘

اسی بارے میں ایس ایس پی انویسٹیگیشن عطاالرحمن نے بتایا کہ ’پولیس کو بچی کے والد پر شک تب ہوا جب ان سے پوچھ گچھ کی گئی کہ بچی کے گم ہو جانے اور اتنے روز گزرنے کے باوجود انہوں نے کسی بھی تھانے میں شکایت درج کیوں نہ کرائی؟ اس سوال کا ملزم تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میٹرو سٹیشن پر تعینات گارڈز نے آٹھ تاریخ کی صبح پولیس کو اطلاع دی تھی کہ یہاں سے لاش ملی ہے۔ بچی کی لاش ملنے کے بعد تحقیقات کے دوران پہلا مرحلہ بچی کے لواحقین تک پہنچنا اورشناخت کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو استعمال کر کے بچی کی تصاویر وائرل کیں تاکہ کوئی دیکھ کر رابطہ کرے۔ ‘

انہوں نے کہا کہ ’عموماً جب غیر شناخت شدہ لاش ملتی ہے تو اُسے امانتاً دفنا دیا جاتا ہے لیکن اس کیس میں ہم نے انتظار کیا اور میت مردہ خانے رکھوا دی۔

ایس ایس پی انویسٹیگیشن عطاالرحمن نے بتایا کہ سات روز گزرنےکے بعد ایک شخص نے ہم سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ بچی اُس کی بیٹی ہے۔

انہوں نے کہا اس کے بعد مکمل شناخت و تصدیق کے بعد میت ان کے حوالے کی گئی جس میں بچی کے والد و تایا شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ والد کو پولیس نے تفتیش کے لیے حراست میں لے لیا تھا اس لیے بچی کے تایا نے میت کی تدفین کی تھی۔

ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے بتایا کہ ’ہمارے لیے یہ عجیب تھا کہ ایک شخص کی بیٹی گُم ہو گئی اور وہ سات روز بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ دیکھ کر پولیس سے رابطہ کر رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’دوران ریمانڈ جب اُس سے تفتیش کی تو اس نے کہا رپورٹ اس لیے نہیں کروائی میں نے سوچا یہیں کہیں ہو گی خود ہی مل جائے گی۔ پھر وہ الگ کہانی سنانے لگ گیا کہ بچی کو گولڑہ دربار لے کر گیا دونوں باپ بیٹی اُدھر ہی سو گئے صبح اُٹھا تو دیکھا بچی غائب تھی۔‘

ایس ایس پی نے مزید بتایا کہ اس دوران سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد بھی حاصل کی گئی۔ آٹھ نومبر شب کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو باریک بینی سے دیکھا گیا تو ایک مشکوک شخص نظر آیا جس کا حلیہ بچی کے باپ جیسا ہی تھا اور اُس کے ساتھ ایک بچی بھی نظر آئی تھی۔

پولیس حکام کے مطابق: ’ملزم بہت چالاک ہے۔ وہ دوران ریمانڈ مختلف باتیں کرتا رہا۔‘

انہوں نے کہا بچی کی جس وقت لاش ملی تھی وہ اتنی پرانی نہیں تھی۔ ابتدائی پوسٹ مارٹم کے مطابق پانچ چھ گھنٹے پرانی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آٹھ نومبر کی شب ایک یا دو بجے کے قریب یہ واقعہ پیش آیا تھا۔

اُن سے جب سوال کیا گیا کہ یہ بھی مفروضہ ہے کہ بچی کو قتل کر کے میٹرو سٹیشن کے باتھ روم میں رکھا گیا تو انہوں نے کہا ’ایسا نہیں ہے۔ بچی کا قتل میٹرو سٹیشن میں ہی ہوا اور وہ وہاں تک چل کر ہی آئی تھی۔‘

ایس ایس پی انویسٹیگیشن عطاالرحمن نے کہا کہ ابتدائی میڈیکل رپورٹ کے مطابق قتل کے وقت بچی پر جنسی تشدد ظاہر نہیں ہوا۔

میڈیکل رپورٹ کے مطابق: ’شاید قتل سے مہینہ پہلے یا کچھ عرصہ پہلے بچی کے ساتھ کوئی واقعہ ہوا ہے لیکن قتل کے وقت بچی کے جسم پر مزید کوئی زخم یا نشان نہیں ملے۔ اس کے گلے پر نشان تھے جیسے گلا دبا کر قتل کیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے بعد بچی کے والد سے دوبارہ پوچھ گچھ کی کہ یہ آپ ہیں فوٹیج میں بچی کے ساتھ تو اُنہوں نے اعتراف کر لیا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے میں نے ہی مارا ہے۔

پولیس کے مطابق: ’قتل کی وجوہات بتاتے ہوئے ملزم نے کہا کہ تین سال کی تھی جب بچی کی والدہ سے علیحدگی ہوئی۔ تب سے بچی سائے کی طرح ساتھ تھی۔ میں غریب آدمی ہوں کسی نے میری مدد نہیں کی۔ بچی مجھ پر ایک ذمہ داری، ایک بوجھ بن گئی تھی۔ میں کام پر جاتا تھا تو خدشہ ہوتا تھا کہ بچی کے ساتھ کوئی زیادتی کا واقعہ نہ پیش آجائے۔ اس لیے بچی کو مار دیا۔‘

ایس ایس پی نے بتایا کہ ’جب بچی کی لاش ملی تھی تو اُس نے سفید جرابیں پہن رکھیں تھیں جو کہ بالکل صاف تھیں۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ننگے پاؤں آتی تو جرابیں گندی نہ ہوتیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بچی کے جوتے بھی ثبوت مٹانے کے لیے غائب کیے گئے۔‘

پولیس حکام نے بتایا کہ بچی کے والد سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ بچی کے کچھ کپڑے اور جوتے قریب ویران جگہ پر دبا دیے تھے۔ پولیس نے ملزم کے ساتھ جا کر جوتے اورکپڑے بھی برآمد کروا لیے ہیں۔

ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے کہا کہ ’معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بچی کے والد اور جس جس کے گھر میں وہ ٹھہرے اُن سب کے ڈی این اے سیمپل بھجوا دیے گئے ہیں تاکہ تعین ہو سکے کہ بچی کے ساتھ کوئی جنسی معاملہ تو نہیں تھا۔‘

انہوں نے کہا: ’ملزم کا جسمانی ریمانڈ مکمل ہو گیا ہے اب جوڈیشل کر کے جیل بھجوا دیا ہے۔ اب ڈی این اے رپورٹ کا انتظار ہے۔ قانون کے سامنے قتل کرنے کا کوئی جواز قابل قبول نہیں ہے۔‘

واضح رہے کہ دو ہفتے قبل اسلام آباد کے سیکٹر جی لیون میں واقع غیر فعال میٹرو سٹیشن سے ایک بچی کی لاش ملی تھی جسے گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔

بچی کے تایا محمد ریاض اور والد نعیم نے فیس بک پر بھتیجی صالحہ فاطمہ کی تصویر دیکھ کر اسے شناخت کیا اور لاش حاصل کر کے تدفین کی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں