خنجراب نامہ: مظفرآباد سے مظفرآباد تک (قسط دوم)

تحریر: شیخ جواد جامی

گلگت بلتستان کی جانب ہمارا پہلا سفر ہونے کے ناطے آنے والا ہر لمحہ ہمارے لیے لُطف کا ساماں میسر کیے ہوئے تھا۔ بل کھاتی شاہراہِ ریشم، پاکستان کے سب سے بڑے دریا، دریائے سندھ کے دلفریب کنارے اور نہ ختم ہونے والے پہاڑی سلسلے ہماری توجہ کا مرکز بنے رہے۔ رائے کوٹ سے آگے ہمارا سفر نہایت شاندار گزرا۔ گلگت پہنچنے سے قبل بونجی کے مقام پر شاہراہِ قراقرم کی دائیں جانب دیامر ڈویژن کے آخری ضلع اور معروف سیاحتی مقام استور کیلیئے پختہ سڑک نکلتی ہے۔ یہاں سے زرا آگے جا کر جگلوٹ کے علاقہ میں ایک ایسی جگہ آتی ہے جہاں برصغیر کے 3 بڑے پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ، کوہ قراقرم اور کوہ ہندوکش باہم ملتے ہیں۔ مقامی سطح پر خاص اس جگہ کو پڑاں کہاں جاتا ہے جبکہ راقم نے اس مقام کو Tri Station کا نام دینا مناسب سمجھا ہے۔

اس مقام پر حکومت نے ایک تین کالمی خوبصورت یادگار بھی تعمیر کی ہے جن میں سے ہر کالم اس مقام پر ملنے والے ایک الگ پہاڑی سلسلے کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہم نے یہاں اپنی گاڑی کو پارک کیا اور تینوں پہاڑی سلسلوں کے ملنے والے سِروں کے عین وسط میں کھڑے ہو کر تصویر کشی کی اور سٹیشن پر موجود ایک مقامی نوجوان کے ساتھ اس کی فرمائش پر وہاں کی لوکل زبان شینا میں گائے جانے والے گانے پر گلگت کا روایتی ڈانس کرنے کی کوشش کی جس سے سفر کی تھکن کافی حد تک جاتی رہی۔ اس نوجوان نے مذکورہ پہاڑی سلسلوں کو ہم سے ایسے پروفیشنل انداز میں متعارف کرایا جیسے ہم ابھی ابھی نیپال، افغانستان یا پھر چین سے تشریف لا رہے ہوں۔

ہم اپنے اگلے دن کے سفر کا دورانیہ کم کرنے کی خاطر ابھی مزید آگے جانا چاہ رہے تھے اسلیے فوراً ہی گلگت کی جانب روانہ ہوئے مگر ابھی چند کلومیٹر ہی آگے گئے تھے کہ جگلوٹ بازار میں ایک پیزا شاپ کے بورڈ نے ہمیں اپنی طرف راغب کیا اور ہم اگلے لمحے شاپ کے اندر مینیو گردانتے پائے گئے۔ پیزا کا آرڈر پلیس کرتے ہوئے ہمارے ایک ساتھی اس بات پر مُصر رہے کہ ان کے واسطے پیزا نہ منگوایا جائے کیونکہ وہ اسے پسند ہی نہیں کرتے مگر یہ واقع قابلِ ذکر جب ہوا کہ پیزا آنے پر موصوف اپنے حصّے کا پیزا اطمینان سے تناول فرمانے کے بعد راقم کی پلیٹ میں رکھے پیزے کو ترستی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔

اس شاپ پر بیٹھے بیٹھے ہم پر اس وقت یہ راز بھی منکشف ہوا کہ ہمارے ایک ہمسفر دوست سائن لینگویج سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب وہ پیزا سینٹر پر موجود دو متصل واش رومز کے دروازوں کی درمیانی دیوار پر چسپاں مردانہ اور زنانہ دو علیحدہ سائن امیجز کو دیکھنے کے باوجود بار بار واپس آ کر پوچھتے کہ انھیں کونسا واش روم استعمال کرنا چاہیے۔ ہم نے پیزا کھا لینے کے بعد آگے جاتے ہوئے گلگت شہر سے کچھ پہلے سکردو موڑ اتر کر تصویر کشی کی جہاں سے سکردو کیلیئے پختہ سڑک دائیں جانب کو مڑتی ہے۔ اب چونکہ شام ہونے کو تھی اس لیے ہم مزید وقت ضائع کیے بغیر آگے بڑھتے چلے گئے۔

شاہراہِ قراقرم گلگت شہر سے زرا پہلے ہی دائیں جانب کو مڑ کر وادیء ہنزہ سے ہوتے ہوئے خنجراب پاس اور پھر چین کی پہاڑیوں میں اوجھل ہو جاتی ہے۔ ہم بھی اسی راہ کے مسافر ہونے کے ناطے اور “جو چلے تو حد سے گزر گئے” کے مصداق شاہراہِ قراقرم پر فراٹے بھرتی ہوئی اپنی گاڑی پر آگے بڑھتے گئے اور رات 10 بجے کے قریب ہنزہ ویلی کے قصبہ علی آباد پہنچ گئے۔

رات علی آباد میں بسر کرنے کے بعد صبح جب آنکھ کھلی تو خواب گاہ کی کھڑکی سے باہر مشہور پہاڑ راکا پوشی کے منظر نے دل و دماغ میں نہایت خوشگواریت کا احساس جگایا۔ آپ جب کبھی گلگت بلتستان کی سیر کو نکلیں اور رات گلگت کے گردونواح میں گزارنا چاہیں تو اس کیلیئے علی آباد سے موزوں ترین مقام اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس قصبہ کی ایک منفرد خاصیت یہ ہیکہ یہاں کی 100 فیصد آبادی شیعہ اسماعیلی مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ بازار کی حدود میں مین روڈ پر 2 عبادت خانے موجود ہیں۔ یہاں کی مقامی زبان وکھی ہے اور علاقے میں لٹریسی ریٹ % 95 سے زائد ہے۔

اس قصبہ میں صبح کا منظر بٹہ کنڈی میں صبح کے مناظر سے مماثلت رکھتا ہے جو ایک سیاح کیلیئے انتہائی حوصلہ افزا اور بیش بہا اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ہماری ہدایت کیمطابق گیسٹ ہاؤس کا ایک سٹاف ممبر علی الصبح ہمارے پرِسڈ سوٹ اٹھائے اس خبر کیساتھ تشریف لایا کہ صبح سویرے بجلی کی اچانک لوڈ شیڈنگ کے باعث ڈرائی کلینر نے برقی استری کو گیس سلنڈر کی آنچ پر گرم کر کے ہمارے ڈریسز تیار کیے ہیں۔ یہ خبر ایک ایسے کارواں کیلیئے کسی بڑی بریکنگ نیوز سے کم نہیں تھی جس کا ہر ممبر ہمیشہ اپنے استری کیے ہوئے سوٹ کو گھما گھما کر اس بات کی تصدیق چاہتا ہیکہ کہیں سوٹ پر کوئی کریز ڈبل تو نہیں ہو گئی۔ بہر حال ساتھیوں نے تحمل سے کام لیا اور دو دوستوں کو صابر و شاکر بنے دیکھ کر ہم باقی دونوں نے بھی صبر و شکر کرتے ہوئے اسی حالت میں ڈریسز پہننے کا فیصلہ کیا۔
ہم نے دن 10 بجے ہنزہ کے اگلے گاؤں کریم آباد کا رُخ کیا جہاں قلعہ بلتت اور قلعہ التت کی سیر کرنا مقصود تھی۔ ایک مقامی شخص کی رہنمائی کے مطابق ہم نے کریم آباد سے بائیں طرف اوپر کو 2 کلومیٹر لنک روڈ پر جا کر گورنمنٹ ہائی سکول کے گراؤنڈ میں اپنی گاڑی پارک کی۔ اب ہمیں یہاں سے 15 منٹ پیدل مسافت طے کرنا تھی۔ اس مختصر پیدل سفر کے دوران ہمیں میر آف ہنزہ کے خاندان کے وارث، سابق گورنر گلگت بلتستان غضنفر علی شاہ کا گھر “نیا محل” دیکھنے کا موقع بھی ملا۔

مزید ایک فرلانگ کے فاصلے پر ہماری دو منفرد بابوں (سگے بھائیوں) سے سرِ راہ ملاقات ہوئی۔ بڑے بھائی کا نام عالم شاہ تھا جبکہ چھوٹے بھائی نے اپنا نام طالب شاہ بتایا۔ ہر دو شخصیات پاک فوج سے ریٹائرڈ تھیں اور راقم کے آبائی علاقہ نیلم ویلی سمیت کشمیر کی بارڈر پر ڈیوٹی سر انجام دے چکے تھے۔ محترم عالم شاہ کی عمر 87 برس تھی جبکہ محترم طالب شاہ بھی اپنی تریاسویں سالگرہ منانے کے قریب تھے۔ ملاقات میں دلچسپ بات یہ رہی کہ دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے اکلوتے پوتے گود میں لے رکھے تھے جبکہ دونوں بچوں کے والد (بابوں کے لختِ جگر) اس وقت پاک فوج میں ملکی دفاع کی خاطر دشمن کی مخالف صفوں میں کمر بستہ ہیں۔ دونوں بزرگ آج بھی اپنے آپ کو پاک فوج کے سپاہی تصور کرتے ہیں اور ماشاءاللہ بھرپور صحت مند زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ہائی سکول کے گراؤنڈ سے قلعہ بلتت تک چند فرلانگ کی چڑھائی چڑھنے کے دوران تھک جانے کی صورت میں کُل فاصلے کے عین وسط میں بائیں جانب پتھروں کا خوبصورت بنچ (جسے ہماری ہندکو زبان میں چاڑی کہتے ہیں) بنایا گیا ہے جہاں آپ کچھ لمحات کیلیئے بیٹھ کر سستا سکتے ہیں۔ قلعہ کے بیرونی مناظر سے آپ مفت میں لُطف اندوز ہو سکتے ہیں جبکہ قلعہ کے اندرونی حالات سے آشنائی کیلیئے آپکو 600 روپے پَرہیڈ ٹکٹ خریدنی ہوتی ہے۔ ہم نے بھی ٹکٹ جاری کرنے والے بھائی سے این آر او نما ڈیل کے تحت ٹکٹیں خریدیں اور گائیڈ کی قیادت میں قلعہ کے اندر جانے والے قافلے کا حصّہ بن گئے۔

قلعہ میں داخل ہو کر پہلے کمرے میں رُک کر گائیڈ نے قلعہ کی تاریخ پر سلیس اردو زبان میں بریفنگ دی۔ گائیڈ انتہائی پروفیشنل نوجوان تھا جس نے ہمیں نہ صرف قلعہ کے میوزیم نما ہر کمرے میں روک کر ریاستِ ہنزہ کے زمانہ میں اس کے استعمال پر تفصیلی بریفنگ دی بلکہ وہاں موجود ہر شے کے قدیمی استعمال پر بھی مناسب گفتگو کی۔ گائیڈ نے ریاستِ ہنزہ کے حدودِ اربعہ کے علاوہ میر آف ہنزہ کے طرزِ زندگی پر بھی مفصل انداز میں روشنی ڈالی۔ قلعہ کے حوالہ سے ایک دلچسپ بات یہ بھی ہیکہ اس کا داخلی راستہ پہلی منزل سے اندر کو جاتا ہے جبکہ خارجی راستہ آخری (بالائی) منزل سے باہر نکل کر سیڑھیوں کے ذریعے قلعہ کی عقبی جانب سے نیچے اترتا ہے۔

بالائی منزل پر میرِ ہنزہ کی تاریخی مسند کے قریب تاثراتی رجسٹر موجود تھا جس پر راقم نے گائیڈ کے پروفیشنلزم کی تعریف کے علاوہ اپنے یاداشتی کلمات تحریر کیے اور دوستوں کے نام کو شاملِ تحریر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا دستخط ثبت کیا اور خارجی راستہ سے تاریخی قلعہ کو خدا حافظ کہا۔ قلعہ بلتت کی سیر کر کے ہم واپس پارکنگ ایریا میں پہنچے تو یہاں موجود ایک چھوٹے سے ریستوران پر ناشتہ کرنے کا پروگرام بنا۔ اس مقام پر موجود چھوٹے چھوٹے ریستورانوں کی ایک منفرد بات یہ بھی ہیکہ یہاں مقامی خواتین ملکر ریستوران چلاتی ہیں جو انتہائی با اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوش ذائقہ کھانے بنانے میں ماہر ہیں۔ اگر آپ کا کبھی یہاں جانے کا اتفاق ہو تو یہاں ناشتہ کرنے کے علاوہ ادھر کی ایک مقامی ریسیپیز سے بنی ہوئی روٹی ضرور کھائیں جو ذائقہ میں اپنی مثال آپ ہے۔

یہاں ناشتہ کرنے کے لیے ریستوران سے باہر اوپن ایئر ایریا موجود ہے جس کے اردگرد خوبانی کے پھل سے لدے ہوئے درخت بھی موجود ہیں۔ موسم موافق ہونے کی صورت میں آپ ریستوران انتظامیہ سے اجازت لے کر ناشتے کے ساتھ ساتھ ایک ٹکٹ میں دو مزے لیتے ہوئے تازہ خوبانیوں کے مزے بھی لے سکتے ہیں۔ یاد رہے یہاں ناشتہ وغیرہ ہنزہ ویلی کے باقی قصبوں کی نسبت مںناسب داموں ملتا ہے۔ قلعہ بلتت سے واپس زرا نیچے آ کر لنک روڈ کی بائیں جانب تھوڑے فاصلے پر قلعہ التت بھی واقع ہے مگر وقت کی قلت کے باعث ہم اس قلعہ کو نہ دیکھ سکے۔ ان دونوں قلعوں کے نام کی خاص وجہ تسمیہ ہو سکتی ہے جس سے راقم تا حال ناآشنا ہے۔

ہم ناشتہ کرنے کے بعد اپنی اگلی منزل عطا آباد کی جانب روانہ ہو گئے۔ اگلے ڈیڑھ گھنٹے میں 14 کلومیٹر پر مشتمل 5 ٹنلز سمیت کُل 40 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ہم عطا آباد جھیل پر پہنچ گئے۔ عطا آباد جھیل کا مقامی نام ششکت جھیل ہے۔ جھیل شمالی علاقہ جات میں آنے والے سیاحوں کی دلکشی کے بڑے مقامات میں سے ایک ہے۔ اس جھیل کی لمبائی 30 کلومیٹر ہے جبکہ 400 فٹ اوسطاً گہرائی ہے۔ جنوری 2010 میں عطا آباد (گُلمِت) کے مقام سے ہیوی لینڈ سلائیڈنگ کے باعث دریائے سندھ بند ہونے کی صورت میں یہ جھیل وجود میں آئی جس سے اس ایریا میں سے گزرنے والی شاہراہِ قراقرم کا 21 کلومیٹر کا سپین مکمل طور پر زیرِ آب آ گیا اور 5 سال تک گاڑیوں کو کشتیوں کی مدد سے آر پار کیا جاتا رہا۔ بعد ازاں ستمبر 2015 میں ٹنلز کی تعمیر کے بعد انھیں ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا یوں شاہراہِ قراقرم پر ٹریفک کا بہاؤ ایک بار پھر معمول پر آ گیا۔

ہم 1 بجے کے قریب جھیل پر پہنچے تو وہاں سیاحوں کا اچھا خاصہ رش تھا۔ جھیل میں کشتی رانی اور ماہی گیری کی سہولیات موجود ہیں تاہم کشتی رانی کے دوران وہاں کے مقامی نوجوان نا خداؤں کی خطرناک بادبانی کو دیکھ کر کوئی دل والا ہی کشتی رانی کا شوق پورا کر سکتا ہے۔ اگر کبھی آپ کو وہاں جا کر کشتی میں سواری کا شوق پیدا ہو تو پہلے ریسکیو ٹیم کی موقع پر موجودگی کا کنفرم ضرور کر لیں مبادا کہ آپ جھیل کی ایگزیکٹ گہرائی معلوم کرنے کا سہرا اپنے سر لینے میں کامیاب ہو جائیں۔ ہم حسبِ وعدہ یہاں بھی کم وقت کیلئے رکے کیونکہ ہمیں ہر حال میں 4 بجے سے پہلے خنجراب پاس پہنچنا تھا۔ اب ہم اپنی منزلِ مقصود خنجراب پاس کیلیئے روانہ ہو چکے تھے۔

ہمارے راستے میں اگلا قابلِ ذکر سٹیشن سُست تھا جسے عام طور پر سُست بارڈر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہم یہاں واپسی پر رکنے کا فیصلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے۔ بارہ کھن کے آس پاس سیکیورٹی فورسز کے آخری جبکہ ہمیں پورے سفر کے دوران روکنے والے پہلے چیک پوائنٹ پر ہمیں روک کر انٹری کرانے کی ہدایت کی گئی۔ ہم نے فوری حکم بجا لایا اور اپنا نام، ساتھیوں کی تعداد اور گاڑی نمبر کا اندراج کرا کر ایک ٹوکن وصول کیا اور آگے نکل گئے۔ ہم چلاس تا خنجراب قدم قدم پر دریائے سندھ میں گرنے والے ندی نالوں کو دیکھ کر اس بات کے معتقد ہوئے کہ گلگت بلتستان واقعتاً لینڈ آف سٹریمز ہے۔ کسکنڈ کے مقام سے شاہراہِ ریشم (قراقرم) پر پہلی بار چڑھائی آتی ہے جو انتہائی دلفریب انداز میں بل کھاتے ہوئے خنجراب پاس سے گزر کر اترائی پکڑتی ہوئی چائنہ کی پہاڑیوں میں کھو جاتی ہے۔

ہم چاروں دوستوں نے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کا راستہ بھرپور انداز میں جاگتے ہوئے طے کیا اور قدرت کے کسی نظارے سے لطف اندوز ہوئے بغیر اسے جانے نہیں دیا۔ خنجراب ٹاپ تک پہنچنے والی شاہراہِ ریشم کا آخری 3 کلومیٹر کا راستہ طے کرتے ہوئے آپ محسوس کرتے ہیں کہ واقعتاً آپ دنیا کی چھت پر سفر کر رہے ہیں جہاں آپ کے چاروں طرف آسماں دکھائی دیتا ہے جس کے بیچوں بیچ آپ کی گاڑی بین الاقوامی معیار پر بنی ہوئی سڑک پر 100 سے زائد کی سپیڈ سے فراٹے بھرتی ہوئی پاک چائنا بارڈر پر پہنچ جاتی ہے۔

شام 4 بجے سے 15 منٹ قبل ہم خنجراب پاس پر پہنچ چکے تھے اور چائنہ کے برف پوش عرش نشیں پہاڑی سلسلے ہماری نظروں کے سامنے فرش نشیں تھے۔ بابِ خنجراب اگرچہ ہماری آنکھوں کے بالکل سامنے تھا مگر ہم اسے چھونے سے قاصر تھے کیونکہ حالیہ کرونا وباء کی صورت حال کے باعث جہاں پچھلے ڈیڑھ سال سے پاک چین اقتصادی راہداری بند ہے وہاں اس وباء کے درآمد یا برآمد ہونے سے بچنے کیلیئے بارڈر پر سیکیورٹی انتظامات کو کافی سخت کیا گیا ہے تاکہ ہر دو طرفہ ممالک کے شہریوں کا آپس میں براہ راست میل ملاپ نہ ہو سکے۔

کرونا ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے شائد یہ واحد موافق مقام ہو سکتا ہے جہاں افراد کو حکومتی احکامات کے تابع کرنے کیلیئے دو ممالک کی فورسز کمر بستہ ہیں۔ یہاں دنیا کی بلند ترین سطح پر واحد اے ٹی ایم بھی نسب ہے جو نیشنل بنک آف پاکستان کے زیرِ انتظام ہے۔ ہم نے یہاں ازراہِ سلفی اے ٹی ایم استعمال کی اور اس کے باہر کھڑے ہو کر تصویر کشی بھی کی۔ خنجراب پاس سطح سمندر سے لگ بھگ 16000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں آپ زیادہ دیر باہر کے موسم سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ یہاں چلنے والی سرد ہوا نے آدھ گھنٹے کے دورانیہ میں ہمارے چہرے کی رنگت کو ہلکا کر دیا جس کا اندازہ راقم کو اپنے ساتھیوں کے چہرے دیکھ کر ہوا۔ ہم نے جلدی سے بابِ خنجراب اور وہاں موجود خنجراب سیکیورٹی فورسز کے نوجوانوں کے ساتھ تصاویر بنوائیں جو نہایت با اخلاق اور کوآپریٹو ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم چین کو دیکھ لینے کے بعد واپس اپنی گاڑی میں بیٹھ جاتے، اچانک ہماری ملاقات وہاڑی سے آئے ہوئے ایک پرانے دوست شاہ زیب سے ہوئ جس نے ہمیں اپنے ساتھ آئے ہوئے باقی دوستوں سے ملایا۔ ہم نے Reunion کے طور پر فوراً اچانک مل جانے والے دوستوں کے ساتھ تصاویر بنوائیں اور مزید سرد ہوا کے منفی اثر سے بچنے کی خاطر واپس گاڑی میں بیٹھ کر گلگت کی جانب گامزن ہوئے۔ واپس آنے میں ہمیں کوئی جلدی نہیں تھی اس لیے اب ہم دھیرے دھیرے خنجراب سے واپس نیچے اترنے لگے۔ واپس آتے ہوئے دائیں بائیں اور سامنے کے قدرتی مناظر بھی قابلِ رشک تھے۔ ہم واپس کسکنڈ سے تھوڑا آگے آ کر شاہراہِ ریشم کے ساتھ بہنے والے ایک چھوٹے سے نالے پر رکے جو آگے آ کر دریائے سندھ کے نام سے شہرت پا لیتا ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ انسان کے لیے اس نالے کو پار کرنے میں اس کے پانی کا شدید ٹھنڈا ہونا ہی واحد رکاوٹ ہے۔ اس نالے نما دریا کے کنارے بیٹھ کر ہم نے خاص طریقے سے آم کھائے اور بعد ازاں اس کے شدید ٹھنڈے (یخ) پانی سے ہاتھ دھونے کے بعد واپس گاڑی میں آ کر بہت دیر تک ہاتھوں کو جیبوں اور چادروں میں چھپا کر گرم کرتے رہے۔ ہم مزید آدھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اس چیک پوسٹ پر موجود تھے جہاں ہماری انٹری ہوئی تھی۔ ہم نے بیریئر پر رسید واپس جمع کرائی جو اس امر کی تصدیق تھی کہ ہم چار لوگوں نے اپنی درج شدہ گاڑی سمیت چائنہ بھاگ جانے کی بجائے واپس پاکستان آ کر زمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

اب ہمارا چُست قافلہ واپس سُست کی طرف رواں دواں تھا۔ راستے میں ایک مقام پر جہاں دریائے سندھ شاہراہِ ریشم کے ساتھ ساتھ چلتا ہے کے بالکل اس پار ایک خشک اور سنگلاخ پہاڑ میں سے پانی کا بڑا چشمہ اُبل کر دریائے سندھ میں گرتا ہے۔ اس بڑی مقدار میں پانی کا یوں خشک پہاڑ سے برآمد ہونا اللّٰہ عزوجل کی قدرت کا حسین ترین کرشمہ ہے جس کے منظر کو ہم نے گاڑی سے اتر کر کیمرے میں بند کیا اور واپسی کا سفر جاری رکھا۔ سُست پہنچنے سے چند میل پہلے مِسگر کے مقام سے ایک کچی سڑک دائیں جانب نکلتی جس کے بارہ میں ہمیں بتایا گیا کہ اگرچہ یہ سڑک تاجکستان جاتی ہے تاہم سڑک بوجوہ مِسگر گاؤں تک زیرِ استعمال ہے جہاں سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر تاجکستان کی بارڈر موجود ہے۔

واپس آتے ہوئے سُست برج پر سے ایک مزید کچی سڑک دائیں ہاتھ کو مڑتی ہے جو بابا غُنڈی زیارت سے ہوتے ہوئے افغانستان جاتی ہے تاہم اس کے بارہ میں بھی ہمیں سُست بازار میں ایک مقامی شخص نے بتایا کہ یہ سڑک یہاں سے کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع چند دیہاتوں تک جاتی ہے جہاں سے آگے سیکیورٹی فورسز سفر کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ سُست بازار میں ہم نے ایک ڈھابہ ریستوران پر مزیدار چائے پی اور سُست ڈرائی پورٹ دیکھنے کا ارادہ کیا۔ سُست ڈرائی پورٹ خنجراب سے واپسی پر سُست بازار سے اوپر بائیں جانب ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں پر پاک چین تجارت کی بحالی کے زمانہ میں چینی مال بردار کنٹینرز آ کر مال انلوڈ کرتے ہیں یہاں سے پاکستانی تاجر مال خرید کر ٹرکوں کے ذریعے ملک کے کونے کونے تک سپلائی کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے سُست کو ملک کا ایک بڑا کاروباری مرکز ہونے کی حیثیت بھی حاصل ہے۔

ہم نے ڈرائی پورٹ جا کر دیکھنے اور وہاں تصاویر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن وہاں سیکیورٹی پر مامور پاک فوج کے ریٹائرڈ جانبازوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ایسا کرنے کیلیئے ہمیں جنرل باجوہ سے پیشگی اجازت لینا ہو گی۔ سو ہم نے اپنے تجربہ کی روشنی میں جانبازوں سے بحث کرنے سے اجتناب کیا اور واپس گلگت کو روانہ ہوئے۔ اب رات چھا چکی تھی ہمیں محض میل کے پتھر ہی راستے میں آنے والے مقامات کی نشاندھی کرتے رہے اور ہم آگے بڑھتے رہے۔ رات گیارہ بجے کے قریب ہم گلگت شہر میں داخل ہو کر اپنی نائٹ ریزرویشن کے مقام پر پہنچے اور ضروری لوازمات کی سر انجام دہی کے بعد خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگے۔

جاری ہے

پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں 

آخری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں 

اپنا تبصرہ بھیجیں