سال 2021 کشمیریوں کے لیےکئی حوالوں سے اہم رہا اور اس سال کے دوران کئی معروف کشمیری شخصیات اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔
آزاد کشمیر میں طبی و غیر طبی وجوہات جیسا کہ کورنا وبا اور قدرتی حادثات کئی شخصیات کی موت کا سبب بنے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں ان وجوہات میں ریاستی تشدد بھی شامل رہا۔
2021 جاتے جاتے متعدد قد آور سیاسی شخصیات کو اپنے ساتھ لے گیا جن کا خلا آنے والے کئی سالوں تک نہیں بھر پائے گا۔
اس سال کے دوران ہم سے بچھڑ جانے والی شخصیات کا تذکرہ بذیل ہے۔
سید علی گیلانی
جموں کشمیر میں علیحدگی پسند تحریک کے ایک بااثر اور سمجھوتہ نہ کرنے والے رہنما سید علی گیلانی ١ ستمبر ٢٠٢١ کو جموں کشمیر کے سب سے بڑے شہر سری نگر میں گھر میں نظر بند ہو کر انتقال کر گئے۔ وہ 91 سال کے تھے۔
ان کی موت کی تصدیق ان کے بیٹے نسیم نے کی۔ انہوں نے کوئی وجہ نہیں بتائی لیکن کہا کہ ان کے والد گزشتہ دو دہائیوں سے دل اور گردے کی بیماری اور حال ہی میں ڈیمنشیا کے ساتھ لڑ رہے تھے۔
سید علی گیلانی بھارت کے خلاف کشمیریوں کی مزاحمت کا سب سے زیادہ پہچانا جانے والا چہرہ اور ایک مشہور سیاسی شخصیت تھے۔
عظیم رہنما انتقال تو کر گئے لیکن ان کی قیادت ہمیشہ زندہ رہے گی اور کشمیریوں کی نسلوں کو متاثر کرتی رہے گی۔
سردار سکندر حیات خان
آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر اور وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان ٩ اکتوبر ٢٠٢١ کو انتقال کر گئے۔
سردار سکندر دل کی بیماری کے باعث ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ انہیں آزاد جموں و کشمیر کا صدر مقرر ہونے اور دو مرتبہ وزیراعظم کے طور پر خدمات سرانجام دینے کا اعزاز حاصل ہے۔
اس سال کے شروع میں سردار سکندر نے ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد “پی ایم ایل این” سے اپنی وابستگی ختم کر کے “مسلم کانفرنس (ایم سی)” میں دوبارہ شمولیت اختیار کر لی تھی۔
سردار سکندر کشمیر میں پی ایم ایل این کے علمبرداروں میں سے تھے۔
سردار سکندر حیات خان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کے خلاف آواز اٹھائی۔ وہ ایک صالح اور اصول پسند سیاست دان تھے۔
محمد اشرف صحرائی
جموں کشمیر کے ایک ممتاز رہنما محمد اشرف صحرائی، جنہیں گزشتہ سال حراست میں لیا گیا تھا، 5 مئی 2021 کو جموں شہر کے ہسپتال کے اندر انتقال کر گئے۔
جموں کے گورنمنٹ میڈیکل کالج اسپتال کے ایک اہلکار نے بتایا کہ COVID-19 کی رپورٹ منفی تھی لیکن “سانس میں تناؤ” پیدا ہو گیا تھا جسکی وجہ سے وہ
وہ زندہ نہ رہ سکے
ان کی عمر 77 برس تھی۔
صحرائی کشمیر میں آزادی کے حامی گروپ تحریک حریت کے صدر تھے جو پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ کشمیر کے میلاپ کی وکالت کرتے ہیں۔
صحرائی سید علی گیلانی کے دیرینہ نائب تھے، صحرائی نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گیلانی کے قریبی ساتھی کے طور پر گزارا اور ان کی وابستگی 1960 کی دہائی سے شروع ہوئی جب وہ جماعت اسلامی، اخوان المسلمین کے مقامی ورژن کا حصہ تھے۔
جی ایم میر
کشمیری مصنف جی ایم میر 30 اپریل 2021 کو ایبٹ آباد میں سپرد خاک ہو گئے۔
میر کافی عرصے سے علیل تھے-
ان کی نماز جنازہ میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
ان کی عمر 93 برس تھی۔
وہ انت ناگ میں پیدا ہوئے، جموں کشمیر سے ہجرت کر کے میرپور آئے اور کچھ سال وہاں مقیم رہے، پھر ایبٹ آباد چلے گئے۔
گزشتہ کئی سالوں سے ایبٹ آباد میں آباد تھے۔ الزائمر بیماری کی وجہ سے وہ یادداشت کی کمی کا شکار تھے۔
جی ایم میر کا شمار کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کے سرخیل مقبول بٹ (شہید) اور بزرگ رہنما مرحوم عبدالخالق انصاری کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
میر جموں کشمیر رائے شماری محاذ کے صدر بھی تھے۔ وہ ایک مایہ ناز قوم پرست رہنما تھے جن کی زندگی کا حرف حرف ریاست جموں و کشمیر کی مکمل آزادی وخودمختاری کے لئے سیاست اور جدوجہد سے عبارت ہے۔
وہ اپنی آخری سانس تک ریاست جموں و کشمیر کی آزادی اور مسئلہ کشمیر کے جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات اور لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف میں بسنے والے لوگوں کی خواہشات کے مطابق حل کئے جانے کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔
میر نے 10 سے 12 کتابیں لکھی تھیں، انہوں نے کشمیری پر بھی کئی کتابیں تصنیف کیں۔
میر کو کشمیری، فارسی، انگریزی، عربی، بنگالی اور اردو پر عبور حاصل تھا۔
حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے کسی بھی بڑے اخبار میں میر کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں لکھا گیا۔ تاہم کشمیر کمیونٹی نے میر کی موت کے بارے میں سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کا تبادلہ کیا۔
سردار محمد صغیر خان چغتائی
پاکستان تحریک انصاف برائے آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سردار صغیر چغتائی کی گاڑی سڑک سے پھسل کر دوسری گاڑی سے ٹکرانے کے بعد دریائے جہلم میں جا گری جس کے نتیجے میں وہ 11 جون 2021 کو جان کی بازی ہار گئے۔
اس المناک حادثے کے ٹھیک دس دن بعد، آزاد سردار صغیر خان چغتائی اور ان کے 37 سالہ ڈرائیور محمد سعید کی لاشیں منگلا ڈیم کے ذخائر سے برآمد ہوئیں۔
دونوں کی لاشیں ڈیم کے علاقے جھیل میں تیرتی ہوئی پائی گئیں۔
چغتائی صاحب ایک تجربہ کار سیاسی اور متوازن شخصیت کے حامل اعلیٰ ذہانت کے مالک تھے۔
سردار صغیر چغتائی اپنی موت سے کچھ ہی روز قبل مسلم کانفرنس چھوڑ کر اپنے بھتیجے سردار تنویر الیاس کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ اس سے قبل وہ مسلم کانفرنس کا حصہ تھے۔
سردار صغیر چغتائی قانون ساز اسمبلی کے ممبر رہنے کے علاوہ آزاد جموں وکشمیر کونسل کے ممبر بھی رہے۔
انہوں نے زمانہ طالب علمی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے طلبا ونگ سے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور بعد ازاں سردار خالد ابراہیم کی جماعت جموں وکشمیر پیپلز پارٹی کا بھی حصہ رہے۔
سیدہ ماہ نور نمل یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں۔ وہ سماجی مسائل پر رپورٹنگ اور میزبانی میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
ان دنوں وہ کشمیر لنک کے ساتھ انٹرن رپورٹر کے طور پر منسلک ہیں
@mahnoor_alishah